زندگی مجھے آزمائے جا رہی ہے
موت قریب آئے جا رہی ہے
زرد پتوں پہ کوئی چل رہا ہے
یا بہار انہیں رلائے جا رہی ہے
ڈار سے بچھڑی ہوئی کونچ
اندھیرے میں کرلائے جا رہی ہے
گھنی چھاؤں سے ڈر لگ رہ ہے
دھوپ ہے کہ کھائے جا رہی ہے
میٹھی میٹھی، بھینی بھینی برسات
تشنگی کو بڑھائے جا رہی ہے
منصفوں کی قلم ہے یا کوئی تلوار
بس سروں کو گرائے جا رہی ہے
منڈیر سے گرا کے بجھے چراغوں کو
عثمان، ہوا دشمنی نبھائے جا رہی ہے