لاکھ مسمار کیئے جائیں زمانے والے
آ ہی جاتے ہیں نیا شہر بَسانے والے
اُس کی زَد پر وہ کبھی خُود بھی تو آ سکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں آگ لگانے والے
کون تعبیر کی سوچے کہ سبھی قتل ہوئے
موسمِ خواب کی تفصیل بتانے والے
اب تو ساون مِیں بھی بارود برستا ہے یہاں
اب وہ موسم نہیں بارش مِیں نہانے والے
اِتنا آسان نہیں شہرِ محبت کا پتہ
خود بھٹکتے ہیں یہاں راہ بتانے والے
اب جو مِلتی ہے تو تنہائی یہی پُوچھتی ہے
تُم ہو..بِچھڑے ہوئے لوگوں کو مِلانے والے
ہم نہ کہتے تھے تُجھے وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ تِرے ناز اُٹھانے والے
سائے مِیں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دُھوپ کی نَزر ہوئے پیڑ لگانے والے