دیار غیر میں رہ کر بھی شناسائی کی باتیں کرتے ہیں
میرا رہنا بھی یہاں مشکل ہے یہ پزیرائی کی باتیں کرتے ہیں
یہ کیا ہوا کہ اپنی وفاؤں کے ہم خود ہی قاتل ٹھہرے ہیں
کبھی ہم بھی انہیں سمجھاتے تھے جو دانائی کی باتیں کرتے ہیں
تیار کھڑے ہیں پروانے اپنی جان نچھاور کرنے کو
شمع پھر بھی یہ کہتی ہے کہ رسوائی کی باتیں کرتے ہیں
اس شہر کے اندر عجب ہی کچھ رہزن بھی بستے ہیں
خود چھین کے روشنی آنکھوں کی بینائی کی باتیں کرتے ہیں
تم ڈھونڈو تو اب بھی مل جائیں تمہیں ایسے لوگ زمانے میں
دکھ رکھ کے اپنے سینے میں جو بھلائی کی باتیں کرتے ہیں
سن کر ترک تعلق کا عثمان کیوں پریشان ہوتے ہو
کیا ان کے دل میں درد نہیں جو جدائی کی باتیں کرتے ہیں