تیری چاہت میری معصومیت پہ چھائے جاتی ہے
طبیعت ان دکھے طوفان سے گھبرائے جاتی ہے
میں تیری آرزو کے شہر میں اب بھی پریشاں ہوں
جنوں کی انتہا اک آگ سی دھکائے جاتی ہے
تمہارا نام کیا جاگا تمنا کے جزیروں میں
میری ہر اک ادا خود مجھ سے بھی شرمائے جاتی ہے
میری جاں جب سے ڈوبی ہوں میں اس خاموش الفت میں
میری تو روح بھی ہر بزم سے اکتائے جاتی ہے
مجھے اب بھی محبت کی وہ بانہیں یاد آتی ہیں
تبھی تو ہر گھڑی وہ جنتیں دکھلائے جاتی ہے
فقط سوچیں نہیں ہمدم فقط نیندیں نہیں ہمدم
تمہاری ذات میری ہر گھڑی پہ چھائے جاتی ہے
میں جب بھی سوچنے لگتی تیرے پیار کو جانی
محبت کی تڑپ اک آئینہ دکھلائے جاتی ہے
یہ موسم کس قدر رمان پرور ہے مگر دوری
یہ دوری وصل کی خواہش کے آڑے آئے جاتی ہے
تمہارے لفظ تیری ماریہ کو یوں لبھاتے ہیں
کہ اک انجان سی خواہش مجھے تڑپائے جاتی ہے
یہ دوری کھائے جاتی ہے غضب سا ڈھائے جاتی ہے
مگر احساس کی نرمی مجھے سہلائے جاتی ہے