اتنے ملے ہیں درد وفا کی کتاب سے
نفرت سی ہو گئی ہے محبت کے باب سے
دل کی زمیں پہ درد و الم یوں برس پڑے
دل چیخ چیخ اٹھا مرا اضطراب سے
آئی شبِ فراق تیری یاد اس طرح
جیسے فضا میں پھیلی ہو خوشبو گلاب سے
شب کا سکوت دل کے اندھیروں میں آ بسا
ہونے لگی نگاہ کو وحشت سی خواب سے
دل کے نگر میں شور ہے آہوں کا سو بسو
بے زار ہو چکا ہوں جہاں کے عذاب سے
اس کو نثار بھول نہ پائے کسی طرح
ہر چند بدحواس ہوئے ہم شراب سے