غم ہستی تری خاطر گواراکرلیا ہے
گزارا ہی تو کرنا تھا گزارا کرلیا ہے
کبھی بھی تیرگی سے کھیل کے ہارے نہیں جو۔۔۔۔۔
ذرا سی بات پر ہم سے کنارا کرلیا ہے
سہاروں سے فقط آلام ہی پائے ہیں اکثر
خوشی سے ہم نے خود کو بے سہارا کرلیا ہے
خوشامد سے مراتب کی بلندی تو ملی ہے
مگر اُس نے خودی کو پارہ پارہ کرلیا ہے
حیا داری کا اپنی پاس یوں رکّھا ہے میں نے
غزل کو بھی حیا کا استعارہ کرلیا ہے