منزل کسے اب تک ملی ہے
جسے منزل سمجھا وہ پڑاؤ نکلا
آنکھ بند ہونے سے پہلے
اتنی مسافت طے کرنےکے بعد
موت جب بانہیں پھیلائے کھڑی ہے
تب حقیقت مجھ پر کھلی ہے
منزل کسے اب تک ملی ہے
جسے پایا وہ بھی خواب سرائے تھا
ساتھ سب کا بس واجبی سا تھا
اسی میں عمر تمام ہوئی ہے
دھوکا ہے جو کچھ بھی یہاں ہے
پلک جھپکتے ہی کایا پلٹ جاتی ہے
کیا سے کیا تقدیر انسان کو بنا دیتی ہے
نہ دکھ سانجھے نہ خوشی اپنی ہوتی ہے
فقط زندگی اس حسرت پر تمام ہوتی ہے
منزل کسے اب تک ملی ہے ۔