میں باغ ہوں
اتنا یاد رہے
میرے پودوں کو چھو کر
میرا پھل کھانے والے
میں باغ ہوں
میرے حسن سے آنکھیں ٹھنڈی کر کے
ساتھ مجھے رکھ کے
ایک نگاہ تفاخر
لوگوں پر کافی نہیں
ہاں میں تیری ملکیت ہوں
پر
یاد رہے
میں باغ ہوں
پانی میری جان ہے
کہ پانی جب میری رگوں سے گزرتا ہے
تو سیراب کیئے جاتا ہے مجھے
تُو مجھے پانی دینا
بھول ہی جاتا ہے
میں باغ ہوں
میں تیری ملکیت کا وہ
پُر تعیش سامان نہیں
تُو نے خریدا
رکھا
بھول گیا
میں باغ ہوں
دور بہت دور جو تنہا قبر ہے
اُس پر بھی بھولا بھٹکا
کوئی مسافر
آ جاتا ہے
میں باغ ہوں
میری حدود میں
کوئی اور پرندہ بھی تو آ سکتا ہے