لہجوں کے نشتر آزما اب کے شاید گھائل ہو جاؤں تیرے لفظوں کو تو مات دے چکا ہوں میں اور کہاں تک چلوں سنگ تیرے اے زندگی موت تک تو تیرا ساتھ دے چکا ہوں میں میں کے گزرا ہوں تو داستانیں چھوڑ چلا ہوں اہل محبت کو اک نیا نصاب دے چکا ہوں میں