وفا میں تیری میں یہ بھی سراب دیکھوں گا
ابھی تو جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھوں گا
بھلے سے کچھ بھی نہ کہہ التفات پر میرے
میں تیرے چہرے پہ تیرا جواب دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ وقتِ جدائی آنے پر
میں تیرا عکس کہیں زیرِ آب دیکھوں گا
میں تیرے جذب سے خود کو نکال سکتا تھا
خبر نہیں تھی ترا اجتناب دیکھوں گا
جو خواہشوں کے سمندر میں پڑ گیا پائوں
میں اپنا آپ وہیں غرقِ آب دیکھوں گا
موازنہ کیلئے آ گیا ہوں ساحل پر
زیادہ کس میں ہے اب اضطراب دیکھوں گا
مجھے خبر ہے وہ مخلص نہیں مگر احسن
چڑھا ہوا ہے جو رخ پر نقاب دیکھوں گا