ٹوٹے نہ دل کسی کا وہ ہر دم کِھلا ملے
اٌس آئینہ کی قدر ہمیشہ سِوا ملے
توڑے نہ زندگی میں تو عہدِ وفا کوئی
اپنے چمن میں ایسا نہ کوئی بے وفا ملے
دل کیوں لگے جہاں میں نہ اٌس کو قرار ہے
ہر شے میں ہے تغیر جو ہر پل جدا ملے
پل میں امیر کوئی تو کوئی فقیر ہو
ہو بھی کوئی تونگر تو پل میں گدا ملے
پل میں چلے ہے آندھی تو پل میں کبھی طوفاں
پل میں ہوا کا رخ بھی بدلتا ہوا ملے
مل جائے خوشیاں پل میں تو ماتم کسی کے گھر
پل میں بہار تو کبھی سب کچھ لٹا ملے
پل میں کوئی ہو شاہ تو محکوم ہو کوئی
ہو بھی کوئی ستمگر تو پل میں فنا ملے
کیوں اثر مطمئن ہو کہ پل کا نہیں یقیں
توشہ ہو آخرت کا تو وہ ہی بقا ملے