آپ سنتے ہیں یہ سدا ہیں ہم
کچھ تماری بھی تو دوا ہیں ہم
جب میسر ہو گہری تنہائی
خود سے کچھ دیر آشنا ہیں ہم
غم کا شکوہ نہ کیجیے صاحب
اپنی حالت پہ مبتلا ہیں ہم
ہو ہی جائیں گے ہم خیال کبھی
دور تک ساتھ ہم نوا ہیں ہم
گزری سر سے نمازِ عشق میں ہم
ہوئی گر یہ بھی جو ادا ہیں ہم
ے وفائی پہ مرگئے تیری
بے وفا یہ ہی تو سزا ہیں ہم
فاصلے ہیں یہ زندگی بھر کے.
دل کے جذبے کا یہ صلہ ہیں ہم
خود کو طوفاں میں آزمائیں ذرا
ساحلوں کا ہی تو سرا ہیں ہم
خوف دنیا نکال کر دل سے
بس خدا کا ہی آسرا ہیں ہم
بے اثر ہے مری دعا وشمہ
ہو اثر اس میں تو صدا ہیں ہم