پھینکا مری جانب کسی نے جال مخالف
اب الٹی چلے گا وہ کوئی چال مخالف
دشمن ہے بنے گا مرا ہمدرد وہ کیسے
جیسا بھی ہے لیکن ہے بہر حال مخالف
اس بات کی آئی تو سمجھ مجھ کو نہیں ہے
کرتا ہے یہ کیوں روز مجھے کال مخالف
چاہت کے سلسلے وہ بڑھانے کو تلا ہے
کیوں پوچھ رہا ہے وہ مرا حال مخالف
بدلے گا نہیں جانتا ہوں اچھی طرح سے
کرتا رہا ہے تنگ کئی سال مخالف
دولت کا پجاری ہے نہج بدلے گا کیسے
کیوں خواب میں آتا ہے وہ کنگال مخالف
جب دال نہیں گھلتی دکھاتے ہیں یہ طاقت
ایسے میں کیا کرتے ہیں ہڑتال مخالف
شہزاد امیں وہ نہیں جس پر تھا بھروسہ
سب کھا گیا ہے دولتِ زر مال مخالف