کتنا شریف شخص تھا جو دھوکے میں آگیا
ہوئی ذرا سی بات بھروسے میں آگیا
شدت سے چاہا اس کو شقاوت نہیں رہی
عکسِ جمیل اس کا تو کوزے میں آگیا
ایسی چلی ہے چال رعونت سے دوستو
پاگل جو شخص تھا وہ شکنجے میں آگیا
مجھ کو جو دیکھتا تھا بڑے التفات سے
اس کے قریب آیا تو سکتے میں آگیا
مل سکتا نہ تھا سامنے وہ سب کے اس لیے
وہ شخص ملنے ہجر کے حجرے میں آ گیا
خوشحال زندگی کے نہ ادوار وہ رہے
حالات میرے دیکھ کے صدمے میں آ گیا
راتیں فراقِ ہجر میں ایسے ہی کٹ گئیں
اتنا بڑھا ہے درد کہ سینے میں آ گیا
کرتا تھا روز بات ہو جاتی تھی فون پر
تعریف جب زیادہ کی نخرے میں آگیا
آزاد ہو گیا تھا شکاری کی قید سے
پنچھی وہ خود بخود اسی پنجرے میں آگیا
شہزاد ہجر کی راتیں صدا دینے لگ گئیں
ممکن نہیں تھا ایسا کہ جھونکےمیں آ گیا