کمال ہے مگر اتنا کمال تھوڑی ہے
میرے بچھڑنے پہ اُن کو ملال تھوڑی ہے
ہیں اور بھی بہت سے لوگ اس دنیا میں
کہ ہر خیال اُن کا خیال تھوڑی ہے
کیوں روز روز ملنے کی بات کرتا ہے
یہ ہجر ہے اے دل وصال تھوڑی ہے
ہر بات پہ تُو اُن کی مثال دیتا ہے
بےمثل ہیں وہ اُن کی مثال تھوڑی ہے
اِک آنکھ ہی بھا جاتے ہیں ہم ہر دل کو
جمالِ یار ہے خود کا جمال تھوڑی ہے
یہ تو دل تھا جو بیکار ہی ضد کر بیٹھا
وفا کا تم سے جانا سوال تھوڑی ہے
ہے کیا عجب کہ عامرؔ نے قلم تھاما ہے
کمالِ عشق ہے تیرا کمال تھوڑی ہے