آنکھوں میں بے رخی نہیں ہوتی
ہونٹوں پر جو ہنسی نہیں ہوتی
چاند جانے کی بات رہنے دو
شب میں یہ دلکشی نہیں ہوتی
اتنے بخشے تھے تم نے غم ہم کو
آہوں سے دل لگی نہیں ہوتی
دل کو تھاما ہوا ہے برسوں سے
جانے کب زندگی نہیں ہوتی
لڑ رہے ہیں سبھی ہواؤں سے
آندھیوں میں کمی نہیں ہوتی
بات پہنچی نہیں رقیبوں تک
اپنی اب دوستی نہیں ہوتی
کیسے روشن ہو بزم جاں جاناں
کہتی ہے عاشقی نہیں ہوتی
پھر وہ اترے گا دل کے آنگن میں
آنکھوں میں روشنی نہیں ہوتی
میری سنگت ہیں یاد کے لشکر
جاناں سے دل لگی نہیں ہوتی
مل کے لگتا ہے تم سے اے وشمہ
زندہ سی زندگی نہیں ہوتی