ہے کتنا حسیں آج یہ ماحول کا غم بھی
سب بھول گئی ہوں میں تیرے جور و ستم بھی
بکھرے ہوئے لمحوں کو ذرا کر لوں اکٹھا
تم گردش ایام سے کہنا ذرا تھم بھی
الجھی ہوئی باتوں سے نہ تم مجھ کو ڈراؤ
دیکھے بہت میں نے یہاں دنیا کے ستم بھی
اس دل میں چھپائے ہوئے زخموں کے خزانے
آئیں گے کسی روز تیرے شہر میں ہم بھی
اک لمحہ نہ چین آیا اسے دنیا میں رہ کر
حالات نے دکھ اس کو زیادہ بھی دیے کم بھی
وہ پوجا ہی کرتا تھا اسے دل میں بٹیھا کر
تھا شاید پتھر اس پاگل کا صنم بھی
کچھ عمر گریزاں نے نہ مہلت ہی ہمیں دی
کچھ عاشی کے ہاتھوں سے چھنا لوح و قلم بھی