بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاک بھارت کشیدگی کا ایک اور سال گزر گیا ،اس سال بھی بھارتی ہٹ دھرمی ،
جنگی جنون ، جنگی دھمکیوں،ہندو انتہا پسندی اور پاکستان کے خلاف بھارتی
میڈیا میں مسلسل آگ اگلنے کی مشق مسلسل جاری رہی۔2017کے اختتام پر پاک
بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم خبر دونوں ممالک کے مشیران سلامتی کونسل کا
بنکاک میں دو گھنٹے کی بیٹھک کرنا تھا۔یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب
بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی اس کی بیوی اور والدہ سے ملاقات کے بعد
دونوں ممالک میں الفاظ کی جنگ عروج پر تھی ۔پاکستان نے یہ ملاقات خالصتاً
انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت کروائی تھی لیکن بھارت سرکار نے پہلے اپنی
کامیاب سفارتکاری اور عالمی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جبکہ ملاقات کے بعد رہی
سہی کسر بھارتی میڈیا نے پوری کر دی ۔بھارتی میڈیا اور تجزیہ نگاروں نے اس
ملاقات کو منفی رنگ دے کر عالمی سطح پر اچھالنے کی کوشش کی تاہم اس کا
سوائے بھارت کے اندر کسی جگہ بھی پاکستان کا منفی تاثر نہیں گیا۔کلبھوشن
یادیو سے اس کی بیوی اور والدہ سے ملاقات کے حوالے سے بھارت کو تمام شرائط
سے آگاہ کر دیا گیا تھا جبکہ اس موقع پر بھارتی میڈیا کو بھی دعوت دی گئی
وہ ان کے ساتھ دورہ کر سکتے ہیں تاہم بھارت نے اس پیشکش سے نہ صرف انکار
کیا بلکہ اس ملاقات کے بعد بھارتی میڈیا میں بیٹھنے والے تجزیہ نگاروں اور
صحافیوں نے پاکستان کے خلاف جنگی ماحول بنا دیا ۔ اس موقع پر دنوں مشیروں
کا بیک ڈور رابطوں کے ذریعے تعلقات کی بحالی کے لیے ملنے کو وقتی طور پر
خوشگوار ہوا کے جھونکے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔ ایک غیر جانبدارانہ مقام
پر جاری رہنے والی اس ملاقات میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی، دراندازی ،
دہشت گردی اور دراندازی کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے موضوع پر بھی بات چیت
ہوئی ۔یہ دونوں ممالک کے مشیروں کے درمیان تیسری ملاقات تھی جس سے دونوں
ممالک کے وزرات خارجہ کے دفاتر آگاہ تھے۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر
لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اس سے قبل بھی پاک بھارت کشیدگی کو حل کرنے
کے لیے کردار ادا کر چکے ہیں ۔ ناصر جنجوعہ اس سے قبل بلوچستان کے کور
کمانڈر اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور مجھے یہ اعزاز
حاصل ہے کہ میں نے اس یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ڈگری لی۔ ناصر خان جنجوعہ
بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں تاہم اپنے کام سے عشق کی حد تک لگن انہیں ممتاز
کرتی ہے ۔ پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے وہ مسلسل کوشاں ہیں۔بیک ڈور
رابطوں کی بحالی کے ذریعے پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ خطے میں امن و
استحکام کے لیے وہ اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات بحال کرنے میں سنجیدہ
ہے اور تمام تصفیہ طلب مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے ۔
تاہم اس حوالے سے بھارت کو بھی اپنی جانب سے ان اقدامات کا مثبت انداز سے
جواب دینا ہو گا ۔
2017کا آغاز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سفارتی جنگ سے ہوا جب بھارت
کی طرف سے سلامتی کونسل میں پاکستان پر پابندی لگانے کی قرارداد مسترد ہو
گئی۔ پاکستان اس سے قبل بھارت کے سابق نیوی آفیسر یادیو کلبھوشن کو دہشت
گردی کے جرم میں ایک فوجی آپریشن میں گرفتار کر چکا تھا جس نے اپنے جرم کا
باقاعدہ اعتراف بھی کر لیا ۔کلبھوشن یادیو کی تخریبی کارروائیوں کی اعترافی
ویڈیوز سمیت بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت سلامتی کونسل میں پیش کرنے
کا اعلان کر دیا۔سلامتی کونسل کو پیش کیے گئے ڈوزئیر ز میں پاکستانی پانیوں
میں جاسوسی کرنے والی آبدوز کا تذکرہ بھی شامل کیا گیا۔کلبھوشن یادیو کی
گرفتاری اور اس کے اعتراف جرم کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید سرد
مہری دیکھنے میں آئی ۔بھارت نے پہلے کلبھوشن کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے
انکار کیا تاہم بعد میں شہری تو تسلیم کیا گیا البتہ اسے را کا ایجنٹ تسلیم
کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس تک قونصلر رسائی مانگی ۔ جس پر پاکستان نے صاف
انکار کر دیا ۔ اگرچہ بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جا چکا ہے تاہم
پاکستانی کی فوجی عدالت کلبھوشن یادیو کو دہشت گردی کے سنگین جرم میں سزائے
موت سنا چکی ہے ۔لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اس سال بھی جاری رہی اور بھارت
کی جانب سے بلا اشتعال عام آبادی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ۔ بھارت کی
فائرنگ سے درجنوں عام شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شام ہیں جاں بحق ہو
چکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ اسے بھارت کا دباؤ
کہہ لیں یا موجودو حکمرانوں کی بھارت دوستی کا کمال کہ کشمیر کے لیے
پاکستان سے اٹھنے والی سب سے موثر اور توانا آواز حافظ سعید کو سال کے آغاز
میں ہی اس وقت نظر بند کر دیا گیا جب چند دن پہلے انہوں نے کشمیری قیادت سے
مل کر پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ سال 2017کو کشمیر کے نام کرتے ہیں
اور اپنے تمام پروگرام کشمیر کے نام اور پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ کریں گے۔
اگرچہ پاکستان میں ان پر دہشت گردی کا ایک بھی الزام نہیں ہے تاہم بھارت کی
جانب سے ایسے بے بنیاد الزامات ضرور موجود ہیں جن کا وہ کوئی ثبوت پیش نہیں
کر سکے ۔ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک بھی اس پر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ
ہم پہلے بھی بھارت کے کہنے پر حافظ سعید کو نظر بند کر چکے ہیں تاہم بھارت
کی جانب سے کوئی ثبوت نہ دینے کی وجہ سے عدالتوں نے ان کی نظر بندی ختم کی
۔ یہاں بھی یہی ہوا کہ مسلسل دس ماہ نظر بند رہنے کے آخر عدالتوں نے انہیں
رہا کر دیا ۔
پاک بھارت تعلقات میں امریکہ کا کردار اور افغانستان میں بھارت کی موجودگی
یا اس کا اثر بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ اگرچہ جنوبی ایشیا میں بالعموم اور
ایشیا پیسفک میں بالخصوص امریکہ چین کے اثر کو کم کرنے کے لیے بھارت کو
مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اپنا قدرتی
حلیف بھی قرار دیتا ہے ۔ البتہ صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکہ
نے بھارت کو مکمل طور خطے میں کردار دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کی پہلی جھلک
بھارتی وزیر اعظم مودی کے دورہ اسرائیل میں نظر آئی جو کسی بھی بھارت وزیر
اعظم کا پہلا دورہ تھا جس کا اہتمام امریکی کوششوں سے ہوا۔ ایک طرف امریکہ
بھارت کو تھپکی دیتا رہا تو دوسری طرف پاکستا ن کے حوالے سے اس کی پالیسی
ہمیشہ آقا جیسی نظر آئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ پاکستان نے امریکہ کے
ساتھ تعلقات کو برابری کی سطح پر طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان میں
بھارت کو کردار دینے کی امریکی کوششوں کو پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے واضح
انداز میں کہا کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام ضرور چاہتا ہے لیکن اسے
بھارت کا کردار کسی صورت قبول نہیں۔ پاکستان نے اس دوران امریکہ کی بجائے
چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کر کے پیغام دے دیا کہ اب امریکی
ڈکٹیشن پاکستان کو قبول نہیں اور پاکستان علاقائی طاقتوں سے میل ملاپ کو
زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
گزشتہ سال پاک بھارت تعلقات کے اتار چڑھاؤ میں گزر گیا ۔دونوں ممالک کے
درمیان کشیدگی اسی طرح برقرار رہے گی جب تک کہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو
جاتا ۔ یہ با ت تو طے ہے کہ بیک ڈور رابطوں کو کتنا ہی مضبوط کر لیا جائے
جب تک اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا رابطوں کی
بنیاد کمزور ہی رہے گی جس پر جتنی بھی بلند اور مضبوط عمارت بنا لی جائے وہ
دھڑام سے نیچے آ گرے گی ۔ سال کا اختتام اس پر ہوا کہ دونوں ممالک کے قومی
سلامتی کے مشیروں نے ملاقات کی اور تنازعات کے لیے مل بیٹھنے پر اتفاق کیا
تاہم سال کے آغاز میں ہی بڑی خبر یہ ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے
پاک بھارت کرکٹ مقابلوں کے کسی بھی قسم کے انعقاد کی تردید کرتے ہوئے واضح
کر دیا کہ پاک بھارت کشیدگی اس انتہا پر ہے کہ یہ مقابلے ممکن نہیں ۔ بھارت
کے اس رویے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ سال بھی دونوں ممالک کے
درمیان کشیدگی کا ہی رہے گا اور مسئلہ کشمیر کے حل تک کسی بھی وقت دونوں
ممالک کے درمیان جنگ کا امکان ختم نہیں ہو سکتا۔
|