بھارت بظاہر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے لیکن اس کے اندر کئی ایسی تحریکیں موجود ہیں جو دہائیوں سے آزادی کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ کشمیر سے لے کر آسام تک، پنجاب سے لے کر منی پور تک، اور ناگا لینڈ سے لے کر جھاڑکھنڈ کے قبائلی علاقوں تک، ہر جگہ یہ سوال گونجتا ہے کہ آخر بھارت کے دعووں اور حقیقت میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ اگر واقعی بھارت ایک جمہوری اور مساوات پر مبنی ریاست ہے تو پھر کیوں ہزاروں لوگ اپنی جانیں قربان کر کے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں؟ انہی تحریکوں میں سے سب سے پرانی اور سب سے خونی جدوجہد ناگا لینڈ کی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو بھارت کے انتہائی مشرقی کونے میں واقع ہے اور جس کے لوگ خود کو کبھی بھارت کا حصہ نہیں مانتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناگا لینڈ میں ہر سال چودہ اگست کو جشنِ آزادی منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی۔ ناگا قبائل اسے اس بات کی علامت سمجھتے ہیں کہ اگر برصغیر کے دوسرے خطے آزادی پا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ چودہ اگست کو ناگا آرمی کے جوان پریڈ کرتے ہیں، گاؤں گاؤں پرچم لہرائے جاتے ہیں اور بھارت کے خلاف نعرے بلند ہوتے ہیں یہ تحریک اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ برطانوی راج کے دوران بھی ناگا قبائل نسبتاً خودمختار تھے اور انہیں کبھی مکمل طور پر ہندوستانی دائرے میں شامل نہیں کیا گیا۔ 1947 میں آزادی کے بعد جب بھارت نے زبردستی ناگا لینڈ کو اپنے نقشے میں شامل کیا تو قبائل نے اس فیصلے کو رد کر دیا۔ 1952 میں انہوں نے اپنی حکومت اور اپنی فوج بنا ڈالی جسے نیشنلسٹ حلقے ناگا آرمی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس دن سے لے کر آج تک یہ جنگ جاری ہے۔ اس جدوجہد نے ہزاروں جانیں نگل لی ہیں۔ بھارتی فوج نے 1958 میں "آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ" نافذ کیا جس کے بعد فوج کو بلاجواز گرفتاری اور قتل کے اختیارات حاصل ہو گئے۔ ناگا دیہات جلائے گئے، عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں، نوجوانوں کو بغیر مقدمے کے مار دیا گیا۔ اندازوں کے مطابق اب تک تیس ہزار سے زیادہ ناگا باشندے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ بھارتی فوج بھی اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھا چکی ہے۔ لیکن چونکہ اعداد و شمار پر بھارت سختی سے پردہ ڈالتا ہے اس لیے اصل حقیقت شاید کبھی سامنے نہ آ سکے۔ ناگا تحریک وقت کے ساتھ مختلف تنظیموں میں بٹ گئی۔ سب سے مؤثر تنظیم "نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ" یعنی این ایس سی این ہے، جس کی ایک شاخ "آئی ایم" آج بھی بھارت کے لیے سب سے بڑی دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ اس کے سربراہ ٹی موئیوا ایک ایسے رہنما ہیں جو نوے برس کی عمر کے باوجود آزادی کے عزم پر قائم ہیں۔ دوسری طرف ایس ایس کھاپلانگ جیسے لیڈر بھی اس تحریک کا حصہ رہے جن کی جڑیں میانمار تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اکثر الزام لگاتا ہے کہ ناگا باغیوں کو کبھی چین، کبھی پاکستان اور کبھی میانمار کی سرزمین سے مدد ملتی رہی ہے۔
بھارت اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا رہا ہے۔ 1997 میں سیز فائر ہوا اور 2015 میں ایک فریم ورک معاہدہ طے پایا جس کے تحت بھارت نے ناگا لینڈ کو وسیع پیمانے پر خودمختاری دینے کی بات کی۔ لیکن یہ خودمختاری دراصل ایک سمجھوتہ ہے۔ اس کے تحت ناگا لینڈ کو داخلی معاملات مثلاً زمین، مذہب، اور رسم و رواج پر آزادی ملے گی لیکن خارجہ پالیسی، دفاع اور معیشت جیسے بڑے معاملات پر دہلی کا کنٹرول قائم رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ آدھی آزادی ہے، ایک ایسا جال جس میں ناگا عوام کو قید رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ناگا عوام اس پر مطمئن نہیں۔ ان کے نزدیک ستر برس کی قربانیوں کے بعد وہ صرف اندرونی آزادی پر قناعت نہیں کر سکتے۔ ان کا مطالبہ اب بھی ایک الگ ملک ہے جسے وہ "ناگالِم" کہتے ہیں، جس میں بھارت اور میانمار کے وہ تمام علاقے شامل ہوں جہاں ناگا قبائل بستے ہیں۔ لیکن بھارت کے لیے یہ مطالبہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں کیونکہ اگر ناگا لینڈ آزاد ہو گیا تو کشمیر، آسام، منی پور اور پنجاب میں بھی تحریکیں شدت پکڑ لیں گی۔ بھارت کو خوف ہے کہ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ یوں ناگا لینڈ ایک ایسے کربناک موڑ پر کھڑا ہے جہاں نہ تو بھارت اسے آزاد کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی ناگا عوام غلامی قبول کرنے پر راضی ہیں۔ چودہ اگست کو ناگا پرچم تلے آزادی کے نعرے بلند ہوتے ہیں لیکن پندرہ اگست کو دہلی سرکاری تقریبات میں یکجہتی کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ تضاد دراصل بھارت کی کمزوری کا آئینہ دار ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے دعوے کے پیچھے وہ سچ چھپا ہے جسے دہلی کبھی تسلیم نہیں کرنا چاہتا: کہ اس کے اندر کئی قومیں آج بھی آزادی کے لیے تڑپ رہی ہیں۔
ستر برس سے زیادہ کی اس جنگ نے لاکھوں زندگیاں اجاڑ دی ہیں۔ آج بھی ناگا لینڈ کے پہاڑوں میں نوجوان اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں، بھارتی فوج چوکیوں پر مورچے سنبھالے بیٹھی ہے، اور عام لوگ خوف اور امید کے درمیان جیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے بھارت ختم تو کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے غرور اور سیاسی مفادات کی وجہ سے اصل حل دینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف ناگا عوام یہ سمجھوتہ نہیں کر پا رہے کہ اتنی قربانیوں کے بعد وہ صرف "خودمختاری" پر راضی ہو جائیں۔ چودہ اگست کو جب ناگا پرچم تلے آزادی کے نعرے بلند ہوتے ہیں تو یہ صرف ایک دن کی تقریبات نہیں ہوتیں، یہ دہائیوں کے دکھ اور قربانیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر ایک پوری قوم آج بھی خود کو غلام سمجھتی ہے۔ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ناگا عوام کا خواب اب بھی ایک آزاد ملک "ناگالِم" ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خواب کبھی حقیقت کا روپ دھار سکے گا یا پھر یہ تحریک آنے والی نسلوں تک یونہی قربانیوں اور خون کے داغ لیے آگے بڑھتی رہے گی؟ جبکے دوسری طرف پاکستان اور چائنہ کا بنگلہ دیش میں بڑھتا ہوا سیاسی اور عسکری اثرورسوخ بھارت کو مزید پریشانی میں مبتلا کر رہا ایک ہفتہ قبل پاکستان آرمی کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی بھارت کو کھلی دھمکی کے ہمارا اگلا حملہ مشرق کی طرف سے ہوگا جو اس بات کی نشاندھی کر رہا ہے کے پاکستان چائنہ اور بنگلہ دیش بھارت کی چیکن نیک سلگیری کوریڈور پر نظریں جما کر بیٹھے ہیں اور یہی چیز بھارت کو پریشانی میں مبتلا کر رہی ہے اس علاقے پر اگر بھارت کمزور ہوا تو صرف ناگا لینڈ نہیں ،اسام ، میزورام ، منی پور بھی ہاتھ سے جائیں گے |