بعض شخصیات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد بھی دلوں میں
زندہ ہوتے ہیں اور دلوں پر راج کرتے ہیں ،ان میں شیخ المشائخ حضرت مولانا
معز الحق ؒ (ٹل شیخ صاحب )بھی شامل ہیں ۔
رہبر شریعت شیخ المشائخ حضرت مولانا معز الحق ؒ۱۹۲۲ بمطابق ۱۳۴۲ ہجری علاقہ
ہزارہ کے گاوں زیزاری میں مولوی عبد الحکیم کے گھر پید اہوئے ۔آپ کا تعلق
پٹھانوں کے مشہور قبیلہ سلار زئی سے تھا ۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے جید
علما سے حاصل کرکے اعلی تعلیم لکے حصول کے لئے ۱۹۴۱ میں ہندوستان چلے گئے ۔ایک
سال مدرسہ عبدالرب میں مولانا خد ابخش جیسے اساتذہ سے علوم کے فیوض حاصل
کیے۔اس کے بعد تین سالوں کے لیے مدرسہ عالیہ فتح پوری د ہلی میں داخلہ
لیااور کئی اچھی کتابیں اپنے زمانے کے مشہور اورقابل ترین اساتذۃ سے پڑھیں
،مشکواۃ شریف مولانا عبدالرحمن ؒ ،دیوان متنبی مشہور فارسی وعربی کے ادیب
سجاد حسین ؒ سے ،بخاری،جامع الترمذی اور سنن ابن ماجہ حضرت مولانا ابراہیم
بلیاوی،مطول،حمداﷲ اور صحیح مسلم جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا شریف
اﷲ سواتیؒ سے ،تفسیر بیضاوی ،سنن ابی داود اور شمائل الترمذی مولانا اشفاق
الرحمن صاحبؒ سے پڑھیں ۔۱۹۴۵ء میں شیخ نے گہوارہ علم وعرفان منبع الفیوض
والحکم دارالعلوم دیوبند دوبارہ دورہ حدیث کرنے کے ارادہ سے داخلہ لیااسی
سال دارالعلوم دیوبند میں شیخ کے ساتھ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی
ولی حسن ٹونکی ؒ اور زہد الفقہاء مولانا عبدالشکور ترمذی بھی شریک درس رہے
،شیخ نے دارالعلوم میں بخاری اول شیخ العرب والعجم حضرت شیخ سید حسین احمد
مدنی ؒ سے ،بخاری ثانی فخر المحدثین حضرت مولانا فخر الدینؒ احمد سے
ابوداؤد شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلویؒ سے ،شمائل ترمذی
شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علیؒ سے اور موطا ئین اورطحاوی کی اجازت شیخ
الہند کے تلمیذ رشید مولانا نصیرالدین غورغوشتویؒ سے پڑھیں ۔اس کے علاوی
حضرت کو اماما انقلاب حضرت مولانا عبید اﷲ سندھیؒ ،امام الہند حضرت مولانا
ابوالکلام آزادؒ ،مؤرخ اسلام حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ،شیخ الاسلام
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ،امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اﷲ شاہ
بخاریؒ،شیخ المشائخ حضرت مولانا زکریاؒ اور سالار ختم نبوت حضرت العلامہ
مولانا محمد یوسف بنوری ؒ سے بھی شیخ کو صحبت میں بیٹھنے کی سعادت حاصل
ہوئی ۔
فراغت کے بعد انڈیا پالن پوری میں موضع گھٹامن کے ایک مدرسے میں مدرس ہوئے
،جس میں حضرت نے ابتدائی کتب پڑھائیں جہاں پر مشہور مبلغ مولاناامحمد
عمرپالن پوری صاحب کے چھوٹے بھائی نے بھی شیخ سے شرف تلمذ حاصل کیا ،بعدازیں
موضع آنندہ (انڈیا)میں مدرسہ تعلیم القرآن میں بحیثیت صدر مدرس تقرری ہوئی
،یہاں پرشیخ نے کافیہ،کنزالدقائق اورشرح ملا جامی جیسی مغلق کتابیں پڑھائیں
۔انڈیا میں ڈیڑھ سال کا عرصہ درس وتدریس میں بیت نے کے بعد ہر آئے دن بد
ترسے بد تر ہونے لگے، خونی فسادات انتہاکو پہنچ گئے تو شیخ نے پاکستان کا
رخ کر کے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے دورہ تفسیر کیا ،بعد
ازیں حضرت شیخ نے دارالعلوم سرحد پشاور میں دو سال ،دارالعلوم اسلامیہ لکی
مروت میں چھ سال ،جامعہ اشرفیہ پشاور میں سترہ سال اور بتیس سال دارالعلوم
عربیہ ٹل (ہنگو)درس وتدریس کی خدمات پیش کیں جس میں حضرت شیخ کو باون(۵۲)
سال صحیح بخاری پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
حضرت شیخ کی طرح حضرت کے تلامذہ بھی جبال علم وحلم ہیں ۔جس میں حضرت مولانا
محمد خان شیرانی (سابقہ چیئر میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان )مشہور خطیب
اسلام حضرت مولانامحمد امیر بجلی گھرؒ ،حضرت مولانا قلم الدین (بانی دعوت
تبلیغ افغانستان ) شیخ المشائخ حضرت مولانا مغفور اﷲ باباجی (اکوڑہ خٹک )شامل
ہیں ۔ان کے علاوہ اور بھی اجلہ علماکو حضرت شیخ سے تلامذ ت کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت شیخ صاحب کشف وکرامت بھی تھے ،اگر کوئی آدمی سائل بن کر حضرت شیخ ی
خدمت میں حاضر ہوکر سوال کرتے ،لیکن حضرت کے رعب اور شرم وحیا کی وجہ سے نہ
پوچھ سکتے تو حضرت کشف کے ذریعے اپنی طرف سے سائل کے مطلوبہ سوال کا جواب
دے دیتے کہ یہ مسئلہ اس طرح ہے۔اسی طرح ایک مرتبہ شیخ کے ایک شاگرد اپنے
حفظ کے استاد کے ساتھ بلوچستان سے تشریف آوری کر کے حضرت کی خدمت میں حاضر
ہوئے تو حضرت سے مصافحہ کیا تو حضرت کو کشف کے ذریعے پتہ چلاکہ یہ میرے
تلمیذ ررشید کے حفظ کا استاد ہے اور اپنے شاگرد کو بتایا کہ شاید یہ تیرا
حفظ کا استاد ہے ،اس عالم نے کہاکہ مجھے اس وقت شیخ کے کشف کا علم ہو اکہ
حضرت کو کشف بھی ہوتاہے ۔
تقوی او رﷲیت میں اپنے استاد حضرت مدنی ؒ کی جیتی جاگتی تصویر تھے ،ہمیشہ
اپنے بیانات اورمواعظ میں تقوی پرزور دیاکرتے تھے،آپ کو دیکھ کر یہ احساس
ہوتاتھا کہ شاید قرون اولی کاکوئی اویس قرنی ہے اپنے زمانے سے پیچھے رہ
گیاہو۔ضعف وکمزوری اور تکلیف کے باوجود شیخ سے تہجد،اشراق،چاشت اور اوابین
پڑھنا آپکا معمول تھا، وفات سے بیس سال پہلے منتظمین مدرسہ شیخ نے درخواست
کہ میرے اخراجات بہت کم ہیں لہذا مشاہرہ میں کمی کی جائے شیخ کی درخواست پر
کمی بھی کی گئی لیکن چند ہی ایام کے بعد شیخ نے تمام مشاہرہ مدرسہ سے لینے
کاانکار کیا۔یوں ہی بیس سال تک بغیر مشاہرہ کے اپنے علوم سے علم کے چمن کو
سیراب کرتے رہے ۔
شہرت ونمود سے اس قدر اجتناب کرتے کہ اپنے نام کے ساتھ جب لاحقات اور
القابات دیکھتے تو سخت ناراض ہوتے تھے۔ جب مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا
ولی حسن ٹونکی وفات ہوئے چونکہ آپ جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کے
مسند حدیث کو سنبھالا تھا تو موصوف کی رحلت کے بعد حضرت شیخ کو مسند حدیث
فائز ہونے کی درخواست کی گئی لیکن حضرت شیخ نے اس درخواست کو ٹکرادیا اور
حضرت شیخ نے فرمایا :کہ جامعہ بنوری ٹاون ملک میں نمایا اور ممتاز مقام
حاصل ہے اگر یہاـں پر میں مسند حدیث پر فائز ہوا تو یہ میری شہرت کاسبب بنے
گا،اسی طرح ایک مرتبہ حضرت شیخ نے دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے مسند حدیث پر
فائز ہونے سے بھی انکار کیا تھااور وجہ یہی بتائی تھی کہ یہ میری شہرت کا
سبب بنے گا ۔لہذا مجھے معذور سمجھ کر میرا عذر قبول کیجئے۔
اتباع سنت،زہد وتقوی،اخلاص وﷲت کا یہ عظیم مظہر، تعلیم وتربیت اور تزکیہ
نفس کے داعی ،اتفاق اور اتحاد کی علامت ،غیر متنازع شخصیت،شائق عبادت
استغناوخودداری میں اپنے مرشد ومربی حضرت مدنی کی حقیقی تصویر ،طاغوتی
قوتوں کے تعاقب وسرکوبی میں اپنے اکابر کے صْحیح جانشین ،اسلامی
میدانوں(تعلیم وتعلم، تبلیغ ،تصوف،جہاد اور اسلامی سیاست ) کے موید ودغا
گو،خودنمائی ،ریاکاری ،دولت وشہرت ،طعن وتشنیع، غیبت سے متنفر ، اعلی معلم
اور مربی اور حق ومعرفت کا یہ عظیم منار وپیکر ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ سحری کے وقت
اس دار فانی کو دائمی الوداع کہ کر دار بقا میں اپنے خالق حقیقی سے
جاملے۔حضرت شیخ کی رحلت سے وہ مجالس اور محفلیں ویران ہوگئیں جن کی رونقیں
حضرت شیخ کی ذات اقدس سے وابستہ تھیں ۔
|