آزاد کشمیر عدلیہ کے ججزاور کشمیر کونسل ، لینٹ افیسران کی خاموشیاں

آزاد کشمیر عدلیہ کے ججزاور کشمیر کونسل ، لینٹ افیسران کی خاموشیاں

آزاد جموں و کشمیر کونسل اور لینٹ آفیسران سمیت اختیار اور بے اختیاری ایسے عنوان ہیں جن پر نعرے ہی دعوے اور بڑی بڑی باتیں کرکے اصل ایشوز سے توجہ ہٹاتے ہوئے عوامی تائید و حمایت اور ہمدردیاں حاصل کی جاتی رہی ہین ان عنوان سے منسلک اتھارٹیز کو یہ سہولت یا پھر مسئلہ لاحق ہے ان کے متعلق بڑی سرخیوں اور لوگوں میں خاص کیفیت ماحول پیدا کر نے کی غرض سے بولنے اور لکھنے کے جواب میں بات نہیں کیجاسکتی ،خاص کر لینٹ آفیسران بطور سرکاری ملازم ایسا کر ہی نہیں سکتے ہیں جسکے باعث یکطرفہ موقف یا رحجان ہی چلتا رہتا ہے اور آئینے کا دوسرا رخ دیکھنے سننے کا کوئی ذریعہ یا اسباب میسر نہیں ہیں پاک افواج کا شعبہ ذرائع ابلاغ آئی ایس پی آر بھی زیادہ بات ہونے پر اپنا موقف پیش کرتاہے خود سپریم کورٹ پاکستان کے چیف جسٹس بھی کا نفرنسز وغیرہ میں فیصلوں کیخلاف باتوں پر دوچار حملوں سے اپنا بیانیہ پیش کر دیتے ہیں مگر آزاد جموں وکشمیر و کشمیر کونسل اور لینٹ آفیسران کیخلاف جیسی مرضی باتیں الزمات لگا دئے جائیں طعنے ، طنز کے جتنے مرضی تیر پھینکے جائیں انکے ردعمل یا جانکاری کا راستہ میسر نہیں آتا ہے کہتے ہیں عدالتی ججز کو بات کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونی چاہیے ، کیونکہ خود انکے فیصلے بولنے چاہیے ہیں یہ عدل و انصاف کے آئینہ دار ہیں انصاف قانون اصول سب کے لئے برابر ہے ۔اس لئے ججز کے ہر ایسی جگہ پر جانا برا سمجھا جاتا ہے جس سے ان کا ذاتی تعلق یا شہرت وغیرہ کا شائبہ پیدا ہو جائے ۔ ان کو کچھ کہنا ہو تو اپنے ریمارکس کے ذریعے یہ سہولت با وقار انداز میں حاصل ہے مگر کشمیر کونسل اور لینٹ آفیسرا ن کو ایسا کچھ بھی ذریعہ میسر نہ ہے تاہم اس کے باوجود ان کے ناگزیر وجود اہمیت اور افادیت کا ٹھوس جواز ججز کی تعیناتی کے لئے سمری کی واپسی نے ثابت کر دیا ہے ورنہ یہ اختیار توحالانکہ اس پار ہمارے پاس ہوتا تو قبائل کی بنیاد پر یہ تعیناتیاں ہو چکی ہوتیں ، جیسا کہ سیکرٹریز سے لیکر عام گریڈ کی نوکری جماعتوں کے عہدوں سے لیکر ٹکٹوں اور ہر طرف ہر جگہ ہر شعبہ میں اسکا تسلط مدتوں سے چلتا آرہا ہے اور اس میں بھی یہ بہت بڑا ظلم و ستم ہے قبائل کے اندر بھی اقسام درجہ بندیاں دیکھی جاتی ہیں تو بڑے نام و خاندان کا سکہ چلتا ہے باقی سب غریب مسکین یا کمزور برادری ، علاقہ زبان کے نام پر بدو بنائے جاتے ہیں یا بدو خود ہی بنتے آرہے ہیں ایک بیان کا یہ جملہ بہت ہٹ ہوا تھا یہ ریاست صرف راجہ ، گجر ، سدھن ، جٹ کی نہیں ہے مگر یہ تو شاید کسی سیاستدان کے منہ سے نکلا ہوا بڑی سرخی بنانے کا شوق تھا وہ جو ساری دنیا دیکھ کر آئے ،مہذب دنیا کے ساتھ چلنے پھرنے اور دیکھنے میں عمر گذاری ’ان کا حال بھی بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا ، جو کھودا تو ایک بوند بھی نہ نکلا،کے مصداق ثابت ہوا ہے اگر ججز کے انتخاب میں حصہ داری میرٹ ہے تو پھر کسی سے کوئی کیا توقع رکھے تعصبات کے بتوں نے ایسا بھونچال قائم کر رکھا ہے اگر کوئی شخص ہمت بھی کرئے تو بے موت مارا جاتا ہے مرجانا تو بہت بڑی راحت ہے مگر جیتے جی مرنا قیامت جیسی تکلیف ہے جس سے آزاد خطہ کے عام عوام گزرتے چلے آرہے ہیں اگر کشمیر کونسل اور لینٹ افیسران بھی نہ ہوتے تو پھر ہر طرف ہر جگہ ہر ادارے شعبہ میں آٹے میں نمک جتنے اہلیت ، صلاحیت ، کام کرداروالے بھی اوپر آتے نہ سسٹم کا حصہ ہوتے ۔بلکہ قبیلہ علاقہ زبان کی بنیاد پر بندر بانٹ کھلے عام چلتی رہتی اور باقی سب ہاری مزارعے کی طرح عمر یں ہی گزارتے رہتے ، جنگل کے اس اصل آئین قانون کی راہ میں کشمیر کونسل لینٹ آفیسران بہت بڑی نعمت ثابت ہ ہوئے جسکا اندازہ یہاں سے عدالت العالیہ میں ججز کی پانچ آسامیوں کے لئے پانچ ناموں کو بھجوائے جانا اور پھر سمری کے واپس آ جانے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اگر عدالتوں سے متعلق یہ طرز عمل ہے تو پھر وہ سب ادارے شعبہ جات جن سے متعلق اختیارات حاصل ہیں ان میں کیا کیا ہوتا آرہا ہے شاید ناقابل بیان ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ چیئرمین کشمیر کونسل لینٹ آفیسران اپنا کردار وجود ایسا بنائیں اس خطہ کے عوام کو فلاح کے اسباب میسر آ جائیں جسکے لئے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے ججز کو یہاں اور یہاں کے ججز کے وہاں آفیسران ملازمین کو وہاں اور یہاں والوں کو وہاں لے جا کر ملازمتوں کا فریضہ ادا کرنے کے مواقع دیئے جائیں ۔جس طرح چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے آفیسران یہاں چیف سیکرٹری ، آئی جی ، اے جی ، سیکرٹری مالیات تعینات کیے جاتے ہیں یہاں سے بھی وہاں چیف سیکرٹری و دیگر عہدوں پر کام کرنے موقع دیا جائے تاکہ ناصرف قبیلہ علاقہ زبان بلکہ الحاق خود مختار سمیت دیگر نعروں اور باتوں کی بنیاد پر انکے ذریعے ناجائز مفادات کے حصول کے لئے بلیک میلنک کا سلسلہ بھی ختم ہو اور اصل با صلاحیت با کردار با عمل چہرے سامنے آ سکیں ۔

Tahir Farooqi
About the Author: Tahir Farooqi Read More Articles by Tahir Farooqi: 206 Articles with 131399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.