پاکستانی بندرگاہ اور سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں حائل
کرنے کے لیئے بھارت کا ایک اور منصوبہ سامنے آیا ہے جس کے تحت سی پیک روٹ
گوادر کے ذریعے ہونے والی تمام تجارت اس سے نکلنے والے تمام بحری جہازوں،
پاکستانی اور چینی بحریہ پر چیک رکھنے اور گوادر پورٹ کی اہمیت ختم کرنے کے
لیئے بحیرہ عرب میں دو نئے سمندری پورٹ بنائے جائیں گے، جن پر بھارت کا
کنٹرول اور اثرورسوخ ہو گا۔ اس کے لیئے بھارت نے ایران کے چاہ بہار کے بعد
اومان کے دکم پورٹ کے لیئے معاہدہ کیا ہے۔ گوادر سی پیک کو ناکام کرنے اور
پاکستانی بحریہ پر نظر رکھنے کا ایک نیا بھارتی منصوبہ انتہائی تشویشناک ہے
کہ اب بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر محاذ پر کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی اور اومان کے سلطان قابوس کے مابین ایک ایم او یو پر
دستخط کیئے گیئے ہیں، جس کے تحت اومان کی سمندری بندرگاہ دکم پر بھارتی
بحریہ کے جہازوں کو فری آف کاسٹ تیل بدلوانے اور لنگر اندا ہونے کی اجازت
ہو گی۔ جس سے بحیرہ عرب کے اس علاقے میں بھارت کا اثرو رسوخ بڑھ جائیگا۔
واضح رہے کہ بحیرہ عرب میں پاکستانی بندرگاہ گوادر سے قریب 107 میل دور
ایران میں چار بہار بندرگاہ کو بھارت ڈویلپ کر رہا ہے، جبکہ گوادر سے دکم
کا فاصلہ 436 میل ہے۔ اس خوفناک بھارتی منصوبے کا انکشاف ہوا ہے کہ ان
دونوں بندرگاہوں کو بھارت نہ صرف گوادر پورٹ کو ناکام کرنے کے لیئے استعمال
کرے گا بلکہ گوادر پورٹ پر آنے والے تجارتی جہازوں، ان کی آمدورفت کے علاوہ
پاکستانی بحریہ اور چین کے جنگی جہازوں پر اس کی کڑی نظر ہو گی۔ پاکستان کے
لیئے سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، جس کے مکمل ہونے کے بعد پاکستانی
معیشت تیزی سے ترقی کرے گی۔ اور یہی بات بھارت جیسے ازلی دشمن سے ہضم نہیں
ہو رہی، اور وہ سی پیک کو ناکام بنانے کے لیئے ہر طرح کا حربہ استعمال کر
رہا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیئے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں
کروا کر نقص امن پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ
چین سکیورٹی خدشات کی بناء پر خود اس منصوبے سے پیچھے ہٹ جائے۔ کچھ عرصہ
قبل چینی انجینئرز کا اغوا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سی پیک چونکہ
پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے۔ کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی
پیک) سے دو برس میں23 لاکھ بیس ہزار افراد کو روزگار ملے گا جبکہ 150 ارب
ڈالر کی سرمایہ کاری سے ترقی کے راستے کھلیں گے۔
ایران کا چاہ بہار بندرگاہ کا کنٹرول 18 سال کے لیئے بھارت کو لیز پر دینا
انتہائی تشویشناک ہے کہ بھارت کس تیزی کے ساتھ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر
رہا ہے۔ چاہ بہار منصوبے کی تکمیل کے لیئے بھارت نے ایران کو 50 کروڑ ڈالر
کا سرمایہ بھی فراہم کیا۔ بھارت ایران اور اومان کی بندرگاہوں کو پاکستان
کے خلاف بطور فوجی چھاؤنی استعمال کرے گا۔ بھارت پاکستان کو زیر کرنے میں
ناکام رہا تو اس نے دیگر ممالک کو بھی اپنے ناپاک مقاصد کے لیئے استعمال
کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ بھارت خود ہی دہشت گردی
کا منبہ ہے وہ کیسے علاقے سے دہشت گردی کا مسلہ ختم کر سکتا ہے۔ چاہ بہار
بندرگاہ کو بھارت اس لیئے بہتر سمجھتا ہے کہ وہ اس راستے سے پاکستان کو
بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست افغانستان پہنچ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ
بندرگاہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے صرف 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بھارت
نے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کو پاکستان سے دور کرنے میں کافی کامیابی
حاصل کر لی ہے۔ اب ایران اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے میں
بھی وہی ہتھکنڈے اور طور طریقے بروئے کار لا رہا ہے، جو اس نے پاک افغان
تعلقات میں دراڑیں پیدا کرنے کے لیئے استعمال کیئے تھے۔ پاکستان کو ایران
اور اومان سے براہ راست مزاکرات کرنے چاہیئں اور انہیں یہ سمجھانا چاہیئے
کہ وہ بھارت سے اپنی مرضی سے معاہدے کرنے میں مکمل طور پر بلاشبہ آزاد ہیں،
لیکن اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ ان معاہدوں سے
کسی تیسرے ملک کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر خطے کی جغرافیائی صورتحال دیکھیں تو
پاکستان تین ایسے ملکوں کے درمیان واقع ہے جس میں سے دو یعنی بھارت اور
افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار نہیں، جبکہ بھارت، ایران اور
افغانستان تجارتی، کاروباری اور اسٹریٹجک رشتوں میں بندھے چلے جا رہے ہیں۔
کیا یہ پاکستان کے لیئے لمحہ فکریہ نہیں ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان میں
انتشار، دہشت اور خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتی ہیں، غیر ملکی طاقتیں پاکستان
کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو چودھراہٹ
دینا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان اور چین کو ترقی کرنے سے روکا جا سکے۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ حکومت چاہ بہار اور دکم پورٹ کے معاہدوں کو سنجیدگی سے لے
اور اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیئے اقدامات کیئے جائیں۔ حکومت کو اس
حوالے سے مؤثر حکمت عملی مرتب کرنی چاہیئے تاکہ ایران سمیت اسلامی دنیا سے
تعلقات کو وسعت دے کر پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ |