آمتہ الصبیحہ (فاضلہ)
کشن باغ۔حیدرآباد
سورۃ ال عمران میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد
عندھا رزقا قال یامریم انی لک ھٰذا قالت ھو من عند اللٰہ(آل عمران- 37) جب
بھی زکریا(علیہ السلام) حضرت مریمؑ کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی
چیزیں پاتے،انہوں نے پوچھا،اے مریمؑ ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے
کہا اﷲ کے پاس سے۔بے موسم پھل حضرت بی بی مریمؑ کے پاس آنا یہ ان کی کرامت
ہے ۔یہ ظاہر ہے کہ بی بی مریمؑ اﷲ کی ولیہ ہے۔ روح جسم سے علحدہ ہونے کے
بعد بھی باقی رہتی ہے ۔ سورۃ البقرہ میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:ولا
تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات :راہ خدا میں جو قتل کیے جاتے ہیں ان
کومردہ نہ کہو ۔ روح پرموت کا اثر نہیں ہوتا ۔ روح جسم سے نکل جانے کے بعد
بھی باقی رہتی ہے ۔ مومنین کی روح نورانی ہوتی ہے اپنے خالق کو پہچان لیتی
ہے ۔اس لیے اہل سنت والجماعت کے نزدیک وفات اولیاء کے بعد بھی ان کی کرامات
ظاہر ہوتی ہے۔ کرامات کی دوقسمیں ہے۔ ایک حسی‘ دوسری معنوی ۔ عام لوگ حسی
کرامات اور صاحب کرامات کوولی سمجھتے ہے۔ حالانکہ معنوی کرامات خاص اہل اﷲ
میں مو جود رہتی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کی زندگی میں
کرامت معنوی کے ساتھ کرامات حسی کا ظاہر ہوا۔
قطب دکن حضرت یحییٰ باشاہؒ ایک مرتبہ ذکر واشغال میں مراقب تھے اچانک کھڑے
ہوگئے اوران کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔ اپنے صاحبزداوں کو طلب فرمایا
اورکہاکہ فوری معلوم کرو ‘مولانا انوار اﷲ فاروقی کا مزاج کیسا ہے؟۔ ان
دنوں مولانا کی علالت کا سلسلہ چل رہاتھا ۔صاحبزداوں نے عرض کیا ابھی اطلاع
آئی کہ مولانا کا وصال ہوچکا ہے ۔پھرصاحبزداوں نے آپ سے وجہ معلوم فرمائی
تو آپ نے فرمایا :ابھی میں مراقبہ میں تھا ‘کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کے سارے
راستے اس طرح روک دیئے گئے ہیں جس طرح کبھی بادشاہ کی آمد پر روک دیئے جاتے
ہیں ۔تمام ہجوم سڑکوں کے کنارے اس طرح کھڑا ہے جس طرح کسی بادشاہ کا انتظار
ہے۔ میں ہجوم میں داخل ہوا اور دریافت کیا کہ تم لوگ کس کے انتظار میں کھڑے
ہوتوجواب ملاکہ مولانا انواراﷲ صاحب کا وصال ہوگیا ہے اورجنازہ میں آقا
دوجہاں محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہونے والی ہے۔ اس لیے ہمﷺ کے
استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ (بحوالہ بانی جامعہ نظامیہ کے علمی وروحانی
واقعات)۔
٭٭٭ |