سایۂ مصطفی ، مایۂ اصطفاٰ
عزو نازِخلافت پہ لا کھوں سلا م
یعنی اُس افضل الخلق بعدالرّسل
ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؒ)
افضل البشربعدالانبیاء ،خلیفۂ اوّل وجانشین مصطفی ؐ،اُمّت مصطفویہ کے ہادی
ورہبر،ملت اسلامیہ کے ماتھے کے حسین جھومر،عاشق اکبر،امیرالمؤمنین حضرت
ابوبکرصدیق ر ضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فضائل ومناقب اوران کی مدح
وثناکاکیاکہنا؟آپؓ محبوب خداکے یارِ غاراورشمع نبوت کے جاں نثارہیں۔آپؓ
اپنے صدق وصفااورمحبتِ حبیب خداکی بدولت اس قدرجامع الکمالات اورمجمع
الفضائل ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل
واعلیٰ ہیں اوربارگاہ خداوَرسول میں میں آپؓ کی مقبولیت ومحبوبیت کایہ عالم
ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات طیبہ آپ کی مقدس شان میں نازل ہوئیں
اوراحادیث کریمہ میں آپ کے کثرت ِفضائل کایہ حال ہے کہ خاص آپ کے فضائل میں
(181)حدیثیں مروی ہیں اور(88)اَحادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں حضرت
ابوبکروحضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہمادونوں کانام آیاہے اور(17)حدیثیں ایسی
ملتی ہیں جن میں تینوں خلفاء کاتذکرہ ہے اور(14)احادیث مقدسہ میں چاروں
خلفاء کانام نامی واسم گرامی مذکورہے اور(16)حدیثیں ایسی ہیں جن میں چاروں
خلفائے راشدین کے ساتھ ساتھ دوسرے صحابۂ کرام ؓ شریک ِفضائل ہیں ۔اس طرح کل
(316)حدیثوں میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کانام لے کرسرکاردوجہاں نبی آخرالزمان
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے یارِغاراوررفیق ِجاں نثارکے فضائل ومناقب
کااظہارفرمایاہے۔اُن کے علاوہ بے شمارآیات واحادیث میں ''سابقین
اولین''،''مؤمنین ومہاجرین''اورمجاہدین کاملین وغیرہ کے فضائل میں ضمنی
طورپرآپ کے فضائل وکمالات اس کثرت سے مذکورہیں کہ ان کاشماردشوارہے۔الغرض
فضائل صدیق اکبرؓکی آیتوں اورحدیثوں پرنظرڈالنے کے بعدبلاخوف تردیدیہ
کہاجاسکتاہے کہ قرآن وحدیث میں جس کثرت سے پیارے رسول ﷺ کے یارِ غاریعنی
صدیق باوقارکے محامدومحاسن کاخطبہ پڑھاگیاہے اتناکسی بھی صحابی کاذکرنہیں
کیاگیاہے۔خدائے تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشادفرماتاہے:’’اگرتم محبوب کی مددنہ
کروتوبے شک اﷲ نے ان کی مددفرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہرتشریف
لے جاناہواصرف دوجان سے وہ دونوں غارمیں تھے جب اپنے یارسے فرماتے تھے غم
نہ کھابے شک اﷲ ہمارے ساتھ ہے تواﷲ نے اس پراپناسکینہ اُتارااَوراُن فوجوں
سے اس کی مددکی جوتم نے نہ دیکھیں اورکافروں کی بات نیچے ڈالی اﷲ ہی کابول
بالاہے اورغالب حکمت والاہے‘‘۔(ترجمہ:کنزالایمان،التوبہ،آیت40)تمام مفسرین
کرام کااتفاق ہے کہ سورۂ توبہ کی مذکورہ آیت مقدسہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ
عنہ کے فضائل میں نازل ہوئی ہے۔تمام مفسرین ومؤرّخین کامتفقہ بیان ہے کہ
’’غارثور‘‘میں ہجرت کی شب حضرت صدیق اکبرؓ کے سواکوئی بھی محبوب خداکایارِ
وَفاداراوررَفیق غمگسارنہیں تھااورواقعی آپؓ نے حضورپاک ﷺ کے ایسے یارِ
غاراوروَفادارجاں نثارثابت ہوئے کہ وفاداری وجاں نثاری کی انتہائی منزل
بیان کرنے کے وقت آپ کانام ِمبارک ضرب المثل بن گیاہے چنانچہ آج بھی
اگرکوئی شخص کسی کا انتہائی محب ،غمگساراوراعلیٰ درجے کایارِوفاداراوررَفیق
جاں نثارہوتاہے تواس موقع پرکہاجاتاہے ’’فلاں شخص توفلاں کایارِغار‘‘ہے
۔جناب شبیراَمروہی نے اپنے ہزل کے مخصوص اندازمیں بہت خوب فرمایاہے
دشمن میں دیکھتاہوں جیسے یارِ غارکا
جی چاہتاہے نوچ لوں منہ اُس گنوارکا
قرآن نے اُن کوثانی اثنین کہہ دیا
ثانی نہیں خداکی قسم یارِ غار کا
مذکورہ آیت کریمہ میں ’’اذیقول لصاحبہ‘‘سے آپؓ کی صحابیت کاثبوت قرآن کریم
سے ثابت ہوتاہے۔اس لئے آپؓ کاصحابی ہونااتناقطعی ویقینی ہے کہ اگرکوئی
بدنصیب آپ کی صحابیت کاانکارکردے تووہ قرآن مجیدکامنکراورکافرہوجائے
گا۔خدائے تعالیٰ نے آپؓ پراپنا’’سکینہ ‘‘اُتارا۔یعنی اپنی طرف سے قلبی
اطمینان اورروحانی تسکین کاسامان آپؓ کے قلب مبارک پراُتاردیا۔آپؓ کارتبہ
اتنابلندہے کہ خداوندقدوس آپؓ کی صحابیت پراپنی شہادت کی مہرلگاتاہے اورآپؓ
کواپنے محبوب ؐ ’’کا یارِ غار‘‘فرماتاہے اورآپؓ کے سفینۂ قلب پراپناسکینۂ
رحمت نازل فرماتاہے ۔یہ عزوشرف،اورعظمت وکرامت کی وہ سربلندیاں ہیں جوکسی
دوسرے صحابی کونصیب نہیں ہوئیں۔
آپ ؓکے فضائل ومناقب احادیث طیبہ کی روشنی میں: حضرت ابوبکرصدیقؓ کی فضیلت
اوران کی عظمت کے اظہارمیں بہت سی حدیثیں واردہوئیں ہیں۔ترمذی شریف کی حدیث
ہے کہ حضورپاک ﷺ نے فرمایاکہ:کسی شخص کے مال نے مجھ کواتنافائدہ نہیں
پہنچایاجتنافائدہ کہ ابوبکرکے مال نے پہنچایاہے۔آقائے دوجہاں ﷺ نے ایک جگہ
اورارشادفرمایاکہ: غارثورمیں تم میرے ساتھ رہے اورحوض کوثرپربھی تم میرے
ساتھ رہوگے۔(ترمذی شریف)
حضر عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہاسے مروی ہے کہ میرے والدگرامی حضرت ابوبکرصدیق
ؓ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے توحضورﷺ نے فرمایا:’’انت عتیق
اللّٰہ من النار‘‘یعنی تجھے اﷲ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے آزادکردیاہے۔حضرت
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسی روز سے میرے والدِ محترم کانام عتیق
پڑگیا۔(مشکوٰۃ شریف،ص556)
اورابوداؤدشریف کی حدیث ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کومخاطب
کرتے ہوئے فرمایا:ائے ابوبکرسن لوکہ میری اُمت میں سب سے پہلے تم جنت میں
جاؤ گے۔(مشکوٰۃشریف،ص556)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہاسے روایت ہے کہ ایک چاندنی رات میں جب کہ رسول
اﷲ ﷺ کاسرِمبارک میری گودمیں تھامیں نے عرض کیایارسول اﷲ ﷺ!کیاکسی شخص کی
نیکیاں اتنی بھی ہیں جتنی کہ آسمان پرستارے ہیں۔آپؐ نے فرمایاہاں۔عمرؓکی
نیکیاں اتنی ہی ہیں۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ پھرمیں نے
پوچھااور(والدگرامی )حضرت ابوبکرؓکی نیکیوں کاکیاحال ہے؟حضورﷺ نے
ارشادفرمایاعمرؓکی ساری نیکیاں ابوبکرکی ایک نیکی کے برابرہیں ۔(مشکوٰۃ
شریف،ص560)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:ابوبکرسے
محبت کرنااوران کاشکراداکرناپوری اُمت پرواجب ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص40)
حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی بارگاہ اقدس میں
حاضرتھاکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ آئے اورسلام کے بعدانہوں نے عرض کیاکہ یارسول
اﷲ!میرے اورعمربن خطاب کے درمیان کچھ باتیں ہوگئیں پھرمیں نے نادم ہوکران
سے معذرت طلب کی لیکن انہوں نے معذرت قبول کرنے سے انکارکردیا۔یہ سن
کرحضورﷺ نے تین بارارشادفرمایاکہ ائے ابوبکرؓ اﷲ تعالیٰ تم کومعاف
فرمائے۔تھوڑی دیرکے بعدحضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ بھی حضورکی بارگاہ میں
آگئے۔اُن کودیکھتے ہی حضورﷺ کے چہرۂ اقدس کارنگ بدل گیا۔حضورﷺ کورنجیدہ
دیکھ کرحضرت عمرؓ دوزانوبیٹھے اورعرض کیاکہ ائے اﷲ کے رسول ؐمیں ان سے
زیادہ قصوروارہوں توحضورﷺ نے فرمایا:جب اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمہاری جانب
مبعوث فرمایاتوتم لوگوں نے مجھے جھٹلایامگرابوبکرنے میری تصدیق کی اوراپنی
جان ومال سے میری غمخواری ومددکی ۔توکیاآج تم لوگ میرے ایسے دوست
کوچھوڑدوگے؟۔اوراس جملہ کوحضورپاک ﷺ نے دوبارفرمایا۔ان تمام احادیث مبارکہ
سے آپ کی عظمت وفضیلت صاف طورپرظاہرہوتی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص37)
نام ونسب:آپ ؓ کااسم گرامی عبداﷲ ہے ’’ابوبکر‘‘آپ کی کنیت اور’’صدیق
وعتیق‘‘آپ کالقب ہے۔آپ کے والدکانام نامی ابوقحافہ عثمان اوروالدۂ ماجدہ
کانام اُمّ الخیرسلمیٰ ہے۔ساتویں پشت میں آپ کاشجرۂ نسب حضوراکرم نورمجسم
سیدعالم ﷺ کے شجرۂ خاندانی سے مل جاتاہے۔آپؓ عام الفیل کے ڈھائی برس کے
بعدمکہ مکرمہ میں پیداہوئے۔
زمانۂ جاہلیت: قبیلۂ قریش میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ ایک بہت ہی ممتاز
شخصیت کے مالک تھے ۔چنانچہ زبیربن بکاراورابن عساکران دونوں محدثین نے یہ
فرمایاکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ قریش کے اُن گیارہ منتخب اَشخاص میں سے ہیں جن
کوزمانۂ جاہلیت اوراسلام دونوں میں شرف وفضیلت حاصل رہاہے ۔چنانچہ آپ زمانۂ
جاہلیت میں خون بہانے اورجرمانوں کے مقدمات کافیصلہ فرماتے تھے
جودَورجاہلیت کابہت بڑااِعجازتھا۔(تاریخ الخلفاء)
آپ طبعاً اس قدرباوقاراورصاحب مروّت تھے کہ آپ نے حضرت عثمان غنی ؓ کی طرح
زمانۂ جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہیں پی۔ایک مرتبہ صحابۂ کرام ؓ کے مجمع
میں کسی نے آپ سے سوال کیاکہ بھلاآپ نے کبھی شراب پی ہے ؟توآپ نے فرمایاکہ
معاذاﷲ!کبھی بھی نہیں۔اُس نے پوچھاکہ کیوں؟ توآپ نے برجستہ یہ جواب دیاکہ
اس لئے تاکہ میری عزت وشرافت زائل نہ ہوجائے کیوں کہ شراب نوشی انسان کی
عزت وشرافت کوبربادوغارت کردیتی ہے۔
آپ کااسلام: اسلام میں آپ کاشمارسابقین اولین میں ہے ۔چنانچہ صحابۂ کرام
اورتابعین عظام کی ایک بہت بڑی جماعت کایہی قول ہے کہ سب سے پہلے ایمان
لانے والے حضرت ابوبکرصدیق ؓ ہیں۔حضرت میمون بن مہران جوایک مشہورمحدّث ہیں
اُن سے کسی نے سوال کیاکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ پہلے اسلام لائے یاحضرت
علیؓ؟توانہوں نے جواب دیاکہ حضرت ابوبکرؓ توبحیریٰ راہب کے زمانے ہی میں
ایمان لاچکے تھے اوراس وقت تک توحضرت علی پیدابھی نہیں ہوئے تھے۔کفارنے آپ
پربڑے بڑے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے مگرآپ انتہائی اوموالعزمی اورجوانمردی کے
ساتھ کافروں کی سختیوں اوراذیتوں کامقابلہ کرتے رہے اوراسلام وبانی ٔاسلام
ﷺکی نصرت وحمایت میں استقامت کاپہاڑ بن کرڈٹے رہے اورانتہائی جاں نثار بن
کرہردم ہردقدم پررحمت عالم ﷺ پراپنی جان ومال قربان کرنے پرتیاررہے۔جس وقت
سے مشرف بہ اسلام ہوئے حضورسرورعالم ﷺ کی وفات مبارکہ تک کبھی بھی سفروحضر
،صلح وجنگ میں کہیں بھی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کاساتھ نہیں چھوڑا۔مگرہاں
جب حضوراقدس ﷺ نے آپ کوحکم دیاتوحج اوربعض غزوات کے لئے مجبوراًبارگاہ
نبوتؐ سے علٰحدہ ہوئے ۔محبت رسولؐ کایہ عالم ہے کہ آپ کایہ قول تھاکہ تمام
دنیاکی نعمتوں سے تین ہی چیزیں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں :’’رسول اﷲ ﷺ کے
روئے پُراَنوارکادیدارکرنااوررسول اﷲ ﷺ پراپنامال نثارکرنااورمیری بیٹی
کارسول اﷲ ﷺ کی زوجیت کے شرف سے سرفراز رہنا‘‘۔
آپ کی شجاعت وبہادری: آپ تمام صحابۂ کرام ؓ میں سب سے زیادہ شجاع
اوربہادربھی تھے۔ایک مرتبہ فاتح خیبرحضر ت علی حیدررَضی اﷲ عنہ نے صحابۂ
کرام سے سوال فرمایاکہ بتاؤ ؟سب سے زیادہ شجاع اوربہادرکون شخص ہے؟تولوگوں
نے جواب دیاکہ آپ!تومولائے کائنات نے فرمایاکہ میں توہمیشہ اپنے برابرکے
جوڑ سے لڑتارہاہوں۔تم لوگ یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادرکون ہیں؟اس پرلوگوں
نے عرض کیاکہ ہمیں تونہیں معلوم آپ ہی بتادیجئے!توآپ نے فرمایاکہ سنو!سب سے
زیادہ بہادرحضرت ابوبکرؓہیں۔جنگ بدرمیں حضوراقدس ﷺ ایک چھوٹے سے خیمہ میں
تشریف فرماتھے ۔اب یہ سوال اُٹھاکہ اس خیمہ کے پاس حضورﷺ کی حفاظ ت کے لئے
کون کھڑارہے گا؟توخداکی قسم !تین سوتیرہ مجاہدین میں سے کسی کی بھی ہمت نہ
ہوئی مگرحضرت ابوبکرصدیقؓ ننگی شمشیرہاتھ میں لے کرتنہاخیمۂ نبوی ؐکی حفاظت
کرتے رہے اورجوکوئی حملہ آورخیمہ کارخ کرتاتوحضرت ابوبکرؓجھپٹ کراس پرحملہ
کردیتے ۔چنانچہ آخروقت تک کسی کافرکوخیمۂ نبوی تک پھٹکنے نہیں دیااس لئے
میں کہتاہوں کہ سب سے زیادہ بہادرشخص حضرت ابوبکرصدیق ؓہیں۔(تاریخ الخلفاء)
آپ کی جودوسخاوت: شجاعت کے ساتھ ساتھ سخاوت بھی انسانی عظمت کا بہت
بڑاجوہرہے۔چنانچہ سخاوت اورمالی قربانی میں بھی آپ تمام صحابہ سے بڑھ
کرہیں۔جس دن آپ آغوش اسلام میں آئے آپ کے پاس چالیس ہزاردرہم کاسرمایہ
تھااُس میں سے پینتیس (35)ہزاردرہم تومکہ مکرمہ میں اسلام اوربانی ٔ اسلام
ﷺ کی نصرت وحمایت پرخرچ کرڈالا۔باقی پانچ ہزاردرہم کی رقم لے کر ہجرت کی
اوریہ ساری رقم بھی مدینہ شریف پہنچ کرحضوراحمدمختارﷺ کے قدموں
پرنثارکردی۔ایک مرتبہ اپناسارامال یہاں تک کہ اپنے بدن کے کپڑوں کوبھی راہِ
خدامیں خیرات کردیااورخودایک کملی پہن کراس میں بٹن کی جگہ ببول
کاکانٹالگائے ہوئے اپنے گھرکے اندربیٹھ رہے اُس دن حضرت جبرائیل علیہ
السلام جب وحی لے کرنازل ہوئے تووہ بھی ایک کملی اُوڑھے ہوئے تھے جس میں
بٹن کی جگہ ببول کے کانٹے لگے ہوئے تھے حضوررحمتِ عالم ﷺ نے فرمایاکہ
جبرائیل!آج تم اس نئے لباس میں کیوں آئے ہو؟حضرت جبرائیل علیہ السلام نے
عرض کیایارسول اﷲ!اﷲ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کوحکم دے دیاہے کہ آج سب فرشتے
آسمان میں وہی لباس پہن لیں،جولباس میرے محبوب کے یارِغارنے زمین پرپہن
رکھاہے۔(تاریخ الخلفاء،ص39)
آپ کاعلم: آپ کی علمی جلالت کایہ عالم ہے کہ آپ بالاتفاق’’اعلم
الصحابہ‘‘یعنی تمام صحابۂ کرام سے زیادہ علم والے ہیں۔آپ حافظ قرآن ہونے کے
ساتھ ساتھ فن قرأ ت کے بھی ماہرتھے۔اسی طرح علم الانساب،اورتعبیرخواب میں
بھی آپ کویدطولیٰ حاصل تھااورخطبات کی فصاحت وبلاغت میں توآپ یکتااوریگانہ
روزگارتھے ہراس موقع پرجب صحابۂ کرام کوکوئی مشکل مسئلہ پیش آجاتاتھاتولوگ
آپ ہی کی خدمت اقدس میں حاضرہوتے تھے اورآپ ہمیشہ حدیث مبارکہ سناکرصحابۂ
کرام کے مشکل سے مشکل اشکال کوحل فرمادیاکرتے تھے اورآپ اس قدرذہین وذکی
اورصاحب الرّائے تھے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ کابیان ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے
مجھے یمن کاقاضی بناکربھیجنے کاارادہ فرمایاتوآپ نے اس وقت ایک مجلس شوریٰ
منعقد فرمائی جس میں حضرت ابوبکر،عمر،عثمان،علی،طلحہ،زبیراوراُسیدبن
حضیررضی اﷲ عنہم اجمعین بڑے بڑے صحابۂ کرام موجودتھے۔تمام صحابہ نے ایک
معاملہ میں اپنی رائے دی ۔پھرمجھ سے حضورﷺ نے فرمایاکہ معاذ بن جبل!تم
بولو!تمہاری کیارائے ہے؟تومیں نے عرض کیاکہ یارسول اﷲ ﷺ میں حضرت ابوبکرؓکی
رائے سے اتفاق کرتاہوں۔اُس وقت حضورﷺ نے ارشادفرمایاکہ اﷲ تعالیٰ کویہ
گوارانہیں کہ ابوبکرغلطی کرے۔(طبرانی)
آپ کی سادگی اورتواضع: آپ کی سادگی اورتواضع وانکساری کایہ عالم تھاکہ محلہ
کی چھوٹی چھوٹی لڑکیا ں خلافت سے پہلے بھی اورخلافت کے بعدبھی آپ کے پاس
اپنی بکریاں لاتی تھیں توآپ ان بچیوں کے لئے ان کی بکریوں کادودھ دُوہ
دیاکرتے تھے۔اسی طرح روایت ہے کہ مدینہ منورہ کے اَطراف میں ایک اپاہج
بڑھیاتھی جس کی حضرت عمرفاروقؓ خبرگیری فرمایاکرتے تھے،ایک دن حضرت عمرؓ
اپنے معمول کے مطابق بڑھیاکے پاس خبرگیری کے لئے گئے توخلاف اُمیدیہ
دیکھاکہ بڑھیاکے پاس روٹی پانی اوراس کی تمام ضروریات کاسامان کرکے کوئی
شخص چلاگیاہے۔حضرت عمرفاروق ؓکوبڑی حیرت ہوئی۔چنانچہ جب انہوں نے اس کی
جستجوکی تویہ دیکھاکہ وہ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق ؓتھے۔آپ کویہ دیکھ
کرفاروق اعظمؓ نے عرض کیاکہ واﷲ آپ کے سوایہ کام کرنے والاکون
ہوسکتاتھا۔(تاریخ الخلفاء،ص84)
علالت اوروفات: واقدی اورحاکم میں ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہانے بیان فرمایاکہ والدِ گرامی حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
علالت کی ابتداء یوں ہوئی کہ آپ نے 7؍جمادی الآخرہ پیرکے روزغسل فرمایا۔اس
روزسردی بہت زیادہ تھی جواثرکرگئی۔آپ کوبخارآگیااورپندرہ دن تک آپ علیل
رہے۔اس درمیان میں آپ نمازکے لئے بھی گھرسے باہرتشریف نہیں
لاسکے۔آخرکاربظاہراسی بخارکے سبب 63؍سال کی عمرمبارک میں2؍سال 2ماہ سے کچھ
زائدامورخلافت انجام دینے کے بعد22؍جمادی الثانی 13؍ہجری کوآپؓ کی وفات
ہوئی اورآقائے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مبارک پہلومیں مدفون
ہوئے۔(اِناللّٰہ واِناالیہ راجعون)
آپ کی خصوصیات: حضرت ابوبکرصدیقؓ میں بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں
سے چندخصوصیات ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ابن عساکرحضرت امام شعبی سے روایت کرتے
ہیں۔انہوں نے فرمایاکہ حضرت صدیق اکبرؓ کوخدائے عزوجل نے ایسی چارخصلتوں سے
مختص فرمایاجن سے کسی کوسرفرازنہیں فرمایا۔(1)آپ کانام صدیق رکھااورکسی
دوسرے کانام صدیق نہیں۔(2)آپؓ رسول خداﷺ کے ساتھ غارثورمیں رہے ۔(3)آپ ؓ
حضورپاک ﷺ کی ہجرت میں رفیق سفررہے۔(4)سرکارقدس ﷺ نے آپ کوحکم فرمایاکہ آپ
صحابۂ کرام کونمازپڑھائیں اوردوسرے لوگ آپ کے مقتدی بنیں۔ایک بہت بڑی
خصوصیت آپ کی یہ بھی ہے کہ آپ صحابی،آپ کے والدماجدابوقحافہ صحابی،آپ کے
صاحبزادے عبدالرحمٰن صحابی اوران کے صاحبزادے ابوعتیق محمدصحابی۔یعنی آپ کی
چارنسلیں صحابی ہیں۔رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
آپ کی چنداولیات: (۱)سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔(۲)سب سے پہلے قرآن شریف کانام
مصحف رکھا۔(۳)حضوراکرم ﷺ کے بعدسب سے پہلے قرآن کوجمع کیا۔(۴)سب سے پہلے
کُفّٓارسے لڑے۔(۵)سب سے پہلے خلیفہ ہوئے۔(۶)سب سے پہلے وہ خلیفہ ہیں جن
کوباپ کی حیات میں خلافت ملی۔(۷)سب سے پہلے ولی عہدمقررکیا۔(۸)سب سے پہلے
بیت المال قائم کیا۔(۹)سب سے پہلے خلیفہ کالقب پایا۔(۱۰)اسلام میں سب سے
پہلے مسجدبنائی۔(۱۱) اُمّت میں سب سے پہلے جنت میں جائیں گے!۔(حوالہ:تاریخ
الخلفاء،سیرت خلفائے راشدین،خطبات محرم)
اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں دعاہے کہ ہم سب کوحضورنبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کی سچی غلامی عطافرمائے اورحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
نقش قدم پرچلنے کی توفیق رفیق بخشے۔آمین بجاہ النبی الامینؐ۔
|