ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے : بڑی
مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آج میں اس مقدس اور بابرکت ہستی کا تذکرہ کر رہا ہوں جن سے بچھڑے ہوئے کئی
سال ہوگئے،لیکن یاد آج بھی تازہ ہے۔انشاء اﷲ ہمیشہ رہے گی۔
جانے والے پلٹ کر نہیں آتے : جانے والوں کی یاد آتی ہے
جن کی پامردی و شجاعت،جرأت و دانشمندی،عقل و تدبر اور انقلابی زندگی پر بہت
سے لوگوں نے مختلف پہلوؤں سے بہت کچھ لکھا اور کہا ہے اور لوگ لکھنے پر
مجبور بھی ہوئے ہیں،کیوں کہ اس مردِمجاہد نے اس صفحۂ ہستی پر انقلاب
آفریں،نمایاں کارنامے انجام دے کر تاریخِ انسانیت کے اوراق کو ا س طرح
سجایا ہے کہ اس کا ایک ایک حرف آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہے۔اس سے میری مراد
سرزمینِ دکن کی عظیم الشان شخصیت امیر ملت حضرت مولانا محمد حمید الدین
عاقل حسامیؒ کی عبقری اور انقلابی شخصیت ہے۔جو ایک ہی وقت میں سپہ سالار
بھی تھے اور رضا کار بھی،درویش حق پرست بھی تھے اور صوفی خدا مست بھی،اسبابِ
آسائش کے فقیر بھی تھے اور دولتِ اخلاق نبوی کے امیر بھی۔الغرض حضرتِ
عاقلؒکی انقلابی زندگی ایک ہشت پہلو موتی کی طرح ہے،جس کی ہر جہت روشن
وتابناک اور اہل کمال کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تھی،جس وادی میں حضرت
کے قدم پہنچے وہ گلِ گلزارہوگئی،ان کا رخ جہل و ضلالت کے جس ظلمت کدہ کی
طرف ہوا اس کوبقعۂ نور بنادیا۔امیرملت ؒنے اپنی بے پناہ علمی صلاحیت،خلوص و
ﷲیت،شرافت نفسی اور ملکوتی صفات کے ذریعہ اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش
کو ناکام بنایا اور دارالعلوم حیدرآباد کی صورت میں ایک مینارۂ نور قائم کر
کے صحیح اسلامی فکر کی حفاظت کا انتظام فرمایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
اسلامی ہند میں بڑی بڑی شخصیتیں نمودار ہوئیں جنھوں نے اپنی تحریروں اور
تقریروں کے ذریعے اپنی علمی فضیلت اور سیاسی بصیرت کے ذریعہ قوم و ملت کی
رہنمائی کی،لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جب ایک دبلا پتلا انسان اہل علم و
اہل سیاست کی مجلس میں آتا ہے تو ادب و احترام میں سب کی گردنیں جھک جاتی
ہیں،یہ امیر ملت ہی کی ذات تھی جنہوں نے دینی زندگی کے ہر ہر گوشہ کے ساتھ
دنیوی امور کے ہرہر پہلو کو اجاگر کردیاہے۔
امیر ملت 3جولائی 1928ء اپنے ننہال مستعد پورہ،حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔آپ
کا نام محمد حمید الدین خاندانی نسبت سے حسامی جز و نام اور تخلص عاقل جس
سے آپؒ مشہور و معروف ہوئے اور دنیا آپ کے تذکرے ’’عاقل صاحب‘‘ سے کرتی ہے۔
حضرت امیر ملتؒ کا شمار بھی ان ہی مبارک ہستیوں میں ہوتا ہے،جنہوں نے اپنی
زندگی دین کی احیاء وبقا کے لئے وقف کردی تھی۔امیر ملتؒحضرت مولانا محمد
حمید الدین عاقل حسامیؒ کا بے باکانہ طرز بیان،ظریفانہ اندازِ تکلم،شیرین
زبان،بلند اخلاق،طبیعت میں سادگی،نفاست پسندی، خوش لباسی اور باغ و بہار
شخصیت ہر کسی کو فی الفور اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی۔ہر ہفتہ حسامیہ منزل،
پنجہ شاہ میں بعد نمازِ عشاء وعظ و بیان کی محفل ہوتی،(جو آپؒ کے والد ماجد
حضرت مولانا حسام الدین فاضلؒ کے زمانے سے پابندی کے ساتھ منعقد ہوتی آرہی
ہے)مجلس میں امیر ملت ؒ کے دینی و اصلاحی بیانات سے لوگ مستفید ہوتے
رہے،وعظ کے اختتام پر شرعی سوالات و جوابات کا سلسلہ نہایت دلچسپ ہوا کرتا
تھا۔اس ہفتہ واری محفل کے سلسلے کو حضرت عاقلؒ کے فرزند و جانشین حضرت
مولانا حسام الدین عامل جعفر پاشاہ صاحب جاری رکھے ہوئے ہیں۔عید گاہ میر
عالم میں عید الفطر و عید الضحیٰ کے اجتماعات ہوں یا مسجد چوک و مسجد
دارالشفاء یا کسی اور جگہ پر جلسہ ہائے شب معراج،شب برات،شب قدرہو،دینی
مدارس و مساجد کے تقاریب سنگِ بنیاد،جلسہ تقسیم اسنادات،تکمیل حفظِ قرآن ،جلسہ
دستاربندی، جلسہ اصلاح معاشرہ،جلسہ سیرت رحمۃ للعالمینؐ،جلسہ یاد ابراہیم
خلیل علیہ السلام،جلسہ عظمتِ قرآن،جلسہ عظمتِ صحابہؓ یہ اور اس قسم کے
ہزاروں جلسوں میں آپ ؒ نے شرکت کی ۔امیر ملتؒ کے ہر جلسہ میں جہاں عوام کا
اژدہام ہوتا تھا وہیں علماء کرام کی بھی خاصی تعداد موجود رہتی تھی،سیاسی و
صحافتی دنیا سے تعلق رکھنے والے اصحاب بھی شریک جلسہ ہوتے تھے اور آپ کی
زبان سے نکلے ہوئے جواہر پاروں سے صفحہ قرطاس اورصفحہ دل کو مزین و آراستہ
کرتے تھے اور امیر ملتؒ ہی کی یہ انفرادی خصوصیت تھی کہ ہر مکتب فکر کے
علماء آپ کے خطابات میں شریک رہتے تھے۔
امیر ملتؒ کی شخصیت ایک عبقری اور ہمہ گیر شخصیت تھی،ان کا منصوبہ ایک منظم
منصوبہ ہوا کرتا تھا۔آپؒ کی زندگی ایک انقلابی زندگی تھی۔حضرت امیر ملتؒ
ایسا خلاء پیدا کر گئے ہیں جو بہت مشکل سے پورا ہوگا۔عاقل صاحبؒ ایک عظیم
ترین شخصیت کے مالک تھے۔وہ کونسی خوبی ہے ،جو بحیثیت ِ انسان امیر ملتؒ میں
موجود نہیں تھی۔وہ ہر فن مولا تھے،ہر آنے والے سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں
جانے دیتے تھے اور ذہین اتنے کہ بات کرنے والے سے پہلے اس کا جواب دے دیتے
تھے۔آپؒ کا حافظہ اتنا تیز تھا کہ ایک بار اگر کوئی بات کسی سے کرلی تو اس
کو سالہا سال تک یاد رکھتے تھے ،تن کی صفائی کے ساتھ ساتھ اپنا من بھی صاف
رکھتے تھے۔عاقل صاحبؒ بہت ملنسار تھے۔مسکراتے ہوئے ہر ایک سے ملاقات کرتے
تھے۔
ملت کے مفاد کے لئے جیل کی صعوبتوں کو بھی برداشت کیا،راتوں کی نیند کو ملت
کے فائدے کے لئے قربان کردیا تھا۔1976ء میں اندرا گاندھی نے اپنے بیٹے سنجے
گاندھی کو نسبندی کے سلسلے کے تمام اختیارات دیئے تھے،اس لئے سنجے گاندھی
نے سرکاری دفاتر میں سختی سے اس کو جاری کیا،بذریعہ آپریشن برتھ کنٹرول کا
بیڑہ اٹھایا اور ریلوے کے سینکڑوں مسلمانوں کو تبادلہ کرکے پریشان کردیا
تھا،اس لئے حضرت امیر ملتؒ نے چند اکابرین کے ساتھ اس کے خلاف علم بغاوت
بلند کیا جس کا اثر سنٹرل تک پہنچا،اسی عرصہ میں حکومت وقت نے یہ نعرہ دیا
کہ:’’اگلا بچہ ابھی نہیں دو کے بعد کبھی نہیں‘‘تو حضرت عاقل صاحبؒ نے اس پر
یہ نعرہ دیا’’اگلا بچہ ابھی ابھی بارہ کے بعد کبھی کبھی‘‘اور یہ نعرہ مختلف
مقامات میں ایسا گونجا کہ ہر ایک کی زبان پر یہی نعرہ تھا،اب حکومت وقت بھی
بوکھلاہٹ میں آگئی اور آپؒ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا۔
امیر ملتؒ کی دینی ،ملی اور سماجی خدمات کو ہم کبھی فراموش نہیں کریں
گے۔عاقل صاحب ؒ12مارچ 2010ء کے دن ہم سب کو روتا ہوا چھوڑ کر اپنے خالقِ
حقیقی سے جاملے ۔جب بھی امیر ملت ؒؒکی یاد آتی تو آنکھوں سے آنسوؤں کا
سیلاب جاری ہوجاتا ہے۔
ٹپک پڑتے ہیں آنسو جب آپ کی یاد آتی ہے : یہ وہ برسات ہے جس کا کوئی موسم
نہیں ہوتا
اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ آپؒ کی قبر کو نور سے بھر دے۔آمین ثم
آمین
آئے تھے مثل ِبلبل سیر گلشن کر چلے : دیکھ مالی باغ اپنا ہم تو اپنے گھر
چلے |