کامیاب زندگی

کسی انسان کی جد جہد ہی اسے کامیابی سے ہمکنار کراتی ہے۔لیکن جدجہد اس بند رکی طرح نہ ہو جس سے ایک ہرن نے مدد مانگی تھی کہ وہ اس کے بچے کو بھیڑیا سے چھڑا دے جو اُسے پکڑ لے گیا ہے۔بند ر نے اسے بھروسہ دلایا کہ تم پریشان نہ ہومیں کوشش کرتا ہوں۔اور بندر نے ایک ڈال سے دوسرے ڈال پر ، ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پراچھلنا کودنا شروع کر دیا۔تھوڑی دیر کے بعد ہرن روتی ہوئی آئی اوربندر سے بولی’’ تم سے مدد مانگی تھی لیکن تم نے کچھ نہیں کیا، بھیڑیا میرے بچے کو مار کر کھا گیا۔‘‘بندر بولا ’’بہن! اب اس کی زندگی ہی اتنی تھی اس کا کیا کیا جائے، ویسے میری بھاگا دوڑی میں کوئی کمی رہی ہو تو بتاؤ؟‘‘

جانوروں کی دنیا سے نکل کرجب ہم انسانوں کی دنیا میں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بچہ جب بھوکا ہوتا ہے تو روتا ہے اور اس کا رونا ہی دودھ حاصل کرنے کی جدو جہد ہے ۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ کوئی چیز بغیر جدجہد کے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جدجہد کبھی بیکار نہیں جاتی۔اور یہی جد جہد، کچھ کرنے کی خواہش عبدالستّار ایدھی جو بہت ہی سادہ زندگی گزارنے والے تھے۔ ان کی پیدائش گجرات میں ہوئی تھی اور پھر کراچی چلے گئے تھے۔ابتدا میں وہ اپنے کندھے پر کپڑے رکھ کر گلی گلی میں بیچا کرتے تھے۔ایک گلی میں انھوں نے دیکھا کی دو شخص لڑ رہے ہیں اور اس میں سے ایک نے دوسرے کو چاقو مار دیا۔اس وقت سے انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کی خدمت کرنابنا لیا۔وہ اپنے انتقال کے وقت تقریباً بیس ہزار بچوں کے سرپرست تھے اور 1800ایمبولنس کا بیڑا تھا،وہ بابائے خدمت تھے۔انہیں قبر میں اتارتے ووقت ۱۹؍توبوں کی سلامی دی گئی تھی۔کام ایسا ہوکہ زمانہ کرے یاد۔

کامیابی اُسی انسان کو ملتی ہے جوخدمت کے جذبے کے ساتھ اپنی زبان کے شر سے دوسرے انسان کومحفوظ رکھتا ہے ۔یہ ایک با اخلاق انسان کی علامت ہے۔ اخلاق ہی لوگوں کا تعاون حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔اخلاق بنانے میں مثبت رویہ کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔بلند کردار، اﷲ رب العزت کے نزدیک اور رسول ؐ کے احکام کے پاسدار وہی لوگ ہیں جواپنے اخلاق سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔’مضبوط اخلاق اور اعلی ٰ کردارسر بلندی اور طاقت کا مظہر ہے‘۔جن قوموں نے اسے اپنایا وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں سر بلنداور غالب رہیں اور جن قوموں نے کمزور اخلاق و ناقص کردارکانمونہ پیش کیا وہ دنیا میں ذلیل و خوارہونے کے ساتھ ساتھ محکوم بھی ہو گئیں۔‘ خوش اخلاقی سیرت و کردار کی تکمیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور یہی ہمیں کامیابی کے زینے بھی چڑھاتی ہے۔یہ ترقی کے زینے چڑھنے کے لیے کچھ اُصُول ہوتے ہیں جن کو اپنا رہبربنا لینا چاہیے۔

کہتے ہیں جو وقت کی قدر صحیح معنی میں کرتا ہے تووقت بھی اس کی قدر کرتا ہے اور ذلّت و رسوائی سے بچاتا ہے۔اور جس نے وقت برباد کیا اس نے ذلّت اور رسوائی کو گلے لگایا۔حالانکہ بھارت میں ووقت برباد کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں اور ان مختلف ذرائع میں ہمارا نو جواان بری طرح سے ملوث پایا جاتا ہے۔ ہمارا نوجوان کرکٹ میچوں کو اتنی ذمہ داری کے ساتھ دیکھتا ہے کہ لگتا ہے جیسے اس کی زندگی کا مقصد ہی کرکٹ کامیچ دیکھنا ہو۔ہر کھلاڑی کے گیند پھینکنے، رن لینے اور بیٹنگ کرنے پر پوری نظر رکھتا ہے اور بعد میں نکّڑ پر دوستوں میں بحث بھی کرتا ہے، اتنا ہی نہیں سٹہ بھی لگاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی برباد کرتا ہے۔ ہر بیحودہ باتوں پر غور و خوض ہوتا ہے۔لگتا ہے کہ اگر یہ میٹنگ نہ ہو توبھارت کی معیشت میں بھونچال آجائے گا۔ نکّڑ کی شان بڑھانے والوں میں اقلیت میں رہنے والا مسلمان ا ُسی طرح اکثریت میں ہی پایا جاتا ہے جس طرح ٹوپی، داڑھی اور نقاب میں عدالتوں کے باہر پائے جاتے ہیں۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو نکّڑ سے ہٹانے کی فکر کرنی ہوگی۔ہروالدین کو یہ سوچنا پڑے گا کہ ان کا نونہال کس مقصد سے کتنی دیر باہر رہتا ہے۔گھریلو مسائل کے تصفیہ کے لیے عدالتوں میں بھیڑ لگانے والے مسلمانوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے گھریلوں معاملات کا حل قاضی کی عدالت سے کریا کریں۔بازاروں، نکّڑوں اور عدالتوں پر جمع ہونے والے مسلمانوں سے درخواست ہے وہ لوگ ان جگہوں سے بھیڑ کم کریں اس سے آپ کا پیسہ بھی بچے گا اور وقت بھی۔
 
وقت کو مٹھی میں باندھ کر رکھیں کیونکہ یہ ہاتھ سے نکلا تو پھر پکڑ میں نہیں آتا ہے اور پھر افسوس کے ساتھ ہاتھ ہی ملنا پڑتا ہے۔اس لیے پوری توجہ علم حاصل کرنے میں ہی ہونی چاہئے۔آج کے زمانے میں بھی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ’پڑھائی میں کیا رکھا ہے،مسلمانوں کو کہاں نوکری ملتی ہے؟ اس سے اچھا ہے کہ کوئی ہُنر سیکھ لے‘۔اس تاویل میں کوئی دم نہیں ہے۔اگر نوجوان میں جذبہ ہے،کچھ کر گزرنے کی خواہش ہے تو اس کو شاندار ملازمت بھی مل سکتی ہے بشرط وہ ’پبلک سروِس کمیشن (PSC)‘ کا امتحان دینے کئے لائق محنت کر لے تو ۲۵؍طرح کی ملازمت میں سے ایک پکّی۔

ابھی مغربی بنگا ل میں سول سروس کے امتحان میں۳۲۱؍میں سے ۴۰؍مسلمان بڑے افسر بن گئے۔ان میں ایک امید وار ایسا بھی ہے جن کے والد غربت کی وجہ سے سائکل پر آئسکریم بیچاکرتے تھے۔یہ کامیابی اس کو ریزرویشن سے نہیں ملی، اس کی اپنی محنت تھی جس نے اسے ایک بڑا آفسر بنا دیا۔یہ کوئی ایک مثال نہیں ہے،اخباروں میں برابراس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں اسی لیے کر گزرتے ہیں۔ڈاکٹر ، انجینیئربننے میں پیسا خرچ ہوتا ہے لیکن ’ڈی․ایم․‘ یا ’ایس․پیـ‘ بننے کے لیے بھاری بھرکم فیس والدین کو خرچ کرنی نہیں پڑتی صرف اپنی بھاری بھرکم محنت کی ضرورت رہتی ہے جو آپ کی ہمت اور حوصلہ پر منحصر ہوتی ہے۔

کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری سوچ ہوتی ہے جو ہمیں مختلف قسم کے وسوسوں اور وہمو ں میں مبتلاکر دیتی ہے جیسے ’اگر میں فیل ہو گیا تو کیا ہوگا؟‘ ۔لفظ فیلFAILکی تشریح ڈاکٹر عبدالکلام بہت خوبصورتی سے کیا ہے:
FAIL= First Attempt In Learning

مایوسی کفر ہے، کوشش جاری رکھیں، اپنی قوتوں کو جمع کریں اور ان کو اپنی مقصد کی تکمیل میں لگائیں اور بہتر طریقہ سے مقابلہ کی تیاری پھر سے کریں اوراسے سر کریں۔

کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی شعار کواپنائے رکھنا۔لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ ’فلاں شخص مسلمان ہے اس لیے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا،دھوکہ نہیں دے سکتا، وعدہ خلافی نہیں کر سکتا، کم نہیں تول سکتا،ملاوٹ نہیں کر سکتا‘ وغیرہ وغیرہ۔ حضرت مولانا سجاد نعمانی نے فرمایا کہ ’’جہاں پیشاوری(professionalism) ہے وہاں اخلاقی قدریں نہیں ہیں اور جہاں اخلاقی قدریں ہیں وہاں پیشہ وری (professionalism)نہیں ہے۔مسلم نوجوانو ں کو اس خلا کو بھرنا ہے‘‘۔ انھوں نے آگے فرمایا ’’مسلم نوجوان اپنے میں اخلاقی قدریں پیدا کریں، پاک دامن رہیں، کیرکٹر کوصاف رکھیں اور بہترین تعلیم حاصل کریں،ملک کے قانون کا بھر پور خیال رکھیں،آئین ہند پرپوری طرح عمل کریں،ملک کے وفادار رہیں، شریعت پر عمل کریں،جمہوری اور امن کے ساتھ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے رہیں، ملک کی ترقی میں بھی انکا اپنا حصہ ہونا چاہئے، جس فیلڈ میں ہوں بہترین کار کردگی دکھائیں، یہی اسلام کی تعلیم ہے اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنا ہی عبادت ہے ‘‘۔اسی طرح کی پہچان اگر مسلمان بنا لیتا ہے تو پھردنیا اور دین دونوں جگہ ہی کامیابی۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.