شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے اور تاریخی
طور پر لبنان، اردن اور فلسطین اس کا حصہ رہے ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں یہ
اسلامی سلطنت کا حصہ بنا۔ شام طویل عرصہ یعنی 1516 ء تا 1918ء تک سلطنت
عثمانیہ کا حصہ رہا۔ مختلف مذاہب کا یہ مسکن اور انسانی تاریخ کا گہوارا اس
وقت خا ک و خون میں لپٹا ہوا ہے۔ ایسے ایسے ہولناک مناظر ہیں کہ دیکھے نہیں
جاسکتے۔ شام میں ظلم اور موت کا رقص کیوں جاری ہے؟ ملک شام کیوں خون آشام
ہے؟ وہاں کی صورت حال سے آگاہی کے لیے وہاں کی ایک اہم شخصیت، دانشور اور
صاحب بصیرت محترم حسان صبیحی الحموی سے نشست بہت اہم رہی۔وہ اب سویڈن میں
قیام پذیر ہیں۔ انہیں دو ممالک کی یونیورسٹیوں نے اعزازی پی ایچ ڈی سے
نوازا ہے۔ محترم حسان صبیحی الحموی نے بچوں کے لیے میری کتاب ’’ سبق آموز
کہانیاں ‘‘ کا اپنی نگرانی میں رضا کارانہ طور پر عربی ترجمہ کروایا ہے جو
شائع ہوچکی ہے۔ وہ عالم اسلام اور شام کے معروف مسلمان مؤرخ ،جغرافیہ نگار،
شاعر، خطاط اور علمی شخصیت یاقوت الحموی الرومی کی نسل میں سے ہیں۔ بارھویں
صدی عیسوی کی اس عظیم شخصیت نے بہت سی کتب تصنیف کیں جن میں ان کی مشہور
ترین کتاب ’’معجم البلدان ‘‘ہے جو کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر کئی بار شائع
ہوچکی ہے۔ انگریزی میں یہ کتاب "Dictionary of Countries" کے نام سے شائع
ہوچکی ہے۔ یہ کتاب دنیا کے ممالک اور شہروں کی لغت ہے جو پانچویں اور چھٹی
صدی ہجری کے زمانہ میں دنیا کے مختلف مقامات سے متعلق معلومات فراہم کرتی
ہے۔اس علمی گھرانے سے سے تعلق رکھنے والی شخصیت سے ملاقات کا اہتمام سٹاک
ہوم سٹڈی سرکل کی ماہانہ نشست میں ہوا۔ 2007 ء سے سٹاک ہوم سٹڈی سرکل مسلسل
ماہانہ نشست منعقد کررہاہے جس میں اکثر دنیا کے معروف اہل علم اور دانشور
شریک ہوکر اہم موضوعات پر علمی اور فکری اظہارخیال کرتے ہیں۔ شام کی صورت
حال سے آگاہ کرتے ہوئے حسان صبیحی الحموی نے بتایا کہ شام میں جنگ جنگی ایک
طے شدہ منصوبہ کے تحت کروائی جارہی ہے جس کا مقصد بحیرہ روم میں تیل اور
گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے۔ یہ امریکی اور اس کے اتحادیوں کی روس سے جنگ
ہے جس کا ایندھن شام کے عوام بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شام کی بدقسمتی
کا آغاز 1918 ء میں ہوا جب شریف مکہ نے برطانوی سامراج کی ایما پر ترکی
خلافت بغاوت کا علم بلند کیا اور شام کو سلطنت عثمانیہ سے الگ کر کے
برطانوی تسلط میں دے دیا۔ سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مشرق وسطیٰ میں
چھوٹے چھوٹے ممالک بنا دئیے گئے تاکہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کی طرح بڑی مسلم
ریاست قائم نہ ہوسکے۔ اس حصے بخرے کرنے کی مہم میں وہاں عربوں نے بھرپور
ساتھ دیا جس کا خمیازہ وہ اب بھی بھگت رہے ہیں۔ 1920ء میں شام پر فرانسیسی
افواج نے قبضہ کر لیا۔ یہ وہی دور تھا جب فلسطین کے بارے میں انگریزوں نے
1917ء بالفور کا معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں اسرائیل کے نام سے یہودی
ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فرانس اور
برطانیہ دونوں کمزور ہو گئے تھے او انہوں نے اپنی نوآبادیوں کو آزاد کرنے
کا فیصلہ کیا جس کے تحت ۔ 1946ء میں فرانسیسی اور برطانوی افواج کے نکل
جانے سے شام ایک آزاد ملک الجمہوریہ السوریتہ کے نام سے معرض وجود آیا۔
یہاں تیس سال تک حافظ الاسد صدارت کے منصب پر فائیز رہ کر حکومت کرتے رہے۔
انہوں نے 1970 ء میں شام کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر بعث پارٹی کے
لیڈر منتخب ہوئے۔ سنہ 2000ء میں حافظ الاسد کی موت کے بعد ان کے بیٹے بشار
الاسدنے صدارت کا منصب سنبھالا۔ اس وقت شام کو جس خانہ جنگی کا سامنا ہے اس
کے ذمہ دار ہمسایہ ممالک بھی ہیں جو آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
حسان صبیحی الحموی کے مطابق اگرچہ 1970 سے شام میں الاسد خاندان اور بعث
پارٹی کی حکومت ہے جو سوشلسٹ نظریات رکھتے ہیں لیکن وہاں مذہبی سرگرمیوں پر
کوئی پابندی نہیں تھی اور تمام شہری پرامن ماحول میں اپنی آزادانہ زندگی
بسر کررہے تھے۔ بشارالاسد کے صدر بننے کے بعد بھی کوئی سنجیدہ مسائل نہیں
تھے لیکن جب امریکہ کو علم ہوا کہ بحیرہ روم میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر
ہیں تو اس نے شام کی حکومت سے اپنی شرائط کے تحت لانا چاہا جسے بشارالاسد
نے مسترد کردیا۔ اس کے رد عمل میں امریکہ اور اس کے ساتھی ممالک نے شام کو
سبق سکھانے کا منصوبہ بنا لیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مذہبی شدت پسند
نظریات رکھنے والے ایک مسلمان گروہ کو میدان میں اتارا اور ان کی ہر ممکن
مدد کی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مدد اور سرپرستی میں اس شدت پسند
نام نہاد مسلمان گروہ نے شریعت کی آڑ میں شام میں اپنی کاروائیاں شروع
کردیں اور شام میں وہ آگ لگا دی جس میں آج سب جھلس رہے ہیں۔ جس مذہبی گروہ
کو امریکہ نے اپنا آلہ کار بنایا، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سلطنت عثمانیہ
کے حصے بخرے کرنے میں برطانوی اور فرانسیسی افواج کی مدد کی اور یہ وہی
گروہ ہے جس کا اعتراف سعودی عرب کے ولی عہد نے حالیہ دنوں میں کیا ہے کہ ہم
امریکہ کے کہنے پر ان کی مدد کرتے رہے ہیں۔
مشرق وسطی میں جو کھیل کھیلا گیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ عراق اور لیبیا کو
تباہ کردیا گیا، یمن اور شام میں خانہ جنگی اور قتل و غارت جاری ہے۔ مصر
اور دیگر ممالک کو بے اثر کردیا گیا ہے اور یہ سب سمجھ میں آتا ہے کہ اس سے
کسے فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔۔ شام میں موجودہ صورت حال کی بنیادی وجوہ جناب
حسان الحموی نے تو بیان کردیں اور اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے
ہے ۔ ’’جنگ اور محبت میں سب جائیز ہوتا ہے‘‘ کہاوت سنی تھی ، محبت کا تو
علم نہیں لیکن جنگ میں سب جائیز شام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تباہی اور ظلم کے
ایسے مناظر ہیں کہ دیکھے نہیں جاسکتے۔علم وآگہی کے اس دور میں بھی انسان اس
قدر سفاک ہوسکتا ہے؟ طاقت ور ممالک قوت کے نشہ میں انسانیت پر ایک طرف ظلم
ڈھا رہے ہیں اور دوسری جانب حقوق انسانی، مساوات ، جمہوریت اور انسانیت کا
درس بھی دیتے ہیں۔ علامہ نے جب لینن کو خدا کے حضور پیش کیا تو اس نے یہی
کہا تھا کہ
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
|