ایک کروڑروپے کی بات

زہرہ ودودفاطمی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر)جاویداقبال نے معاملے پربریفنگ دیتے ہوئے اہم انکشافات کیے۔جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال نے بتایا کہ اکثربازیاب ہونے والے لاپتہ افرادخوف کی وجہ سے کمیشن کے سامنے واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے کاالمیہ ہے کہ لوگ حقائق جاننے کے باوجودکسی خوف یامصلحت کی وجہ سے کسی بھی فورم پربتانے سے گریزکرتے ہیں۔کسی طاقتور،بااثرشخصیت یاگینگ نے کسی کواغواکررکھاہو، کسی کی زمین پرقبضہ کررکھاہو، کسی کوگھرمیں قیدکررکھاہو اور ایسے باثرشخص یاگینگ کے بارے مقامی لوگ معلومات رکھتے بھی ہوں توہ ان کے خوف کی وجہ سے بتانے سے انکارکردیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں یہ بھی المیہ ہے کہ ہم خوف کی وجہ سے دوسروں پرہونے والے ظلم پرتودرکناراپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستان سنانے سے بھی اجتناب ہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ خوف کی وجہ سے عدالتوں میں بااثرشخصیات، گروہ یاگینگ اوردہشت گردوں کے خلاف گواہی دینے سے بھی گریزکرتے ہیں۔ایساصرف اورصرف اس لیے ہوتاہے کہ لوگ خودکوغیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ان کاخیال ہوتاہے کہ انہوں نے کسی باثرشخصیت یاگروہ کے خلاف گواہی دے دی تووہ ہماراہمارے خاندان کا جیناحرام کردے گا۔اسی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات عام عدالتوں میں سماعت نہیں کیے جاتے ایسے مقدمات کی سماعت کے لیے دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں۔ نہ جانے بازیاب ہونے والے لاپتہ افرادکے ساتھ کس طرح کاسفاکانہ سلوک کیاگیا ہے کہ وہ ابھی تک خوف میں مبتلاہیں کہ وہ لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سامنے بھی واقعات سنانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال کاکہناتھا کہ لاپتہ افرادمیں سے ستر فیصدسے زائدلوگ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے۔اس بات کی تحقیق بھی ہونی چاہیے کہ عسکریت پسندی میں ملوث لاپتہ افرادلاپتہ ہونے سے پہلے اس میں ملوث تھے یالاپتہ ہونے کے بعدملوث ہوئے۔ایسے افرادعسکریت پسندی میں ازخودملوث ہوئے یاانہیں ملوث ہونے پرمجبورکیاگیا۔کہیں ایساتونہیں کہ جس طرح گم شدہ یاچوری شدہ موبائل سمیں دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہیں اسی طرح ان لاپتہ افرادکوبھی ملک دشمن عناصر ایسے ہی مقاصدکے لیے استعمال کرتے ہوں۔ان کاکہناتھا کہ اگرکوئی شخص دہشت گردہے تواس کامطلب نہیں کہ اس کے گھروالے بھی دہشت گرد ہیں۔جسٹس (ر) جاویداقبال نے ایک کروڑروپے کی بات کی ہے کہ اگرکوئی شخص دہشت گردہے تواس کایہ مطلب نہیں کہ اس کے گھروالے بھی دہشت گردہیں۔اس حوالے سے اب تک جوہوتاآرہا ہے اس سے تویہ ثابت ہوتاہے کہ جوبھی دہشت گردی میں ملوث ہے اس کے گھروالے توکیا اس کاخاندان اوراس کے رشتہ دار، اس کے دوست، اس کے اساتذہ سب کوہی دہشت گردسمجھاجانے لگتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف اس فلسفے سے داڑھی والے زیادہ متاثرہوئے ہیں۔یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ دہشت گردی میں صرف داڑھی والے ہی نہیں بغیرداڑھی والے بھی ملوث ہوتے ہیں ۔داڑھی والے مسلمانوں پرزیادہ ہی شک کیاجاتاہے۔جہاں جہاں سیکیورٹی کی وجہ سے انسانوں کی تلاشی لی جاتی ہے توداڑھی والوں کوبغیرداڑھی والوں کی نسبت زیادہ اس مرحلہ سے گزرناپڑتاہے۔کسی بھی دہشت گردکے گھروالے بھی دہشت گردتونہیں ہوسکتے البتہ اس کے دہشت گردہونے کے ذمہ دارضرورہوسکتے ہیں۔کہ انہوں نے اپنے اس فردکی اچھی تربیت کیوں نہیں کی۔اس کی حرکنات وسکنات پرنظرکیوں نہیں رکھی۔ اس کے دوستوں کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کہ وہ کس طرح کے لوگ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ لاپتہ افرادکے اہل خانہ کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔جسٹس (ر) جاویداقبال نے بتایا کہ ایم کیوایم قیادت کی اپنے لاپتہ افرادکے معاملے میں عدم دلچسپی رہی، سب جانتے ہیں ایم کیوایم کوحکومت کابھی موقع ملااورعشت العبادگورنرسندھ رہے تاہم اختیارملنے کے باوجودایم کیوایم نے لاپتہ افرادکی بازیابی میں سنجیدگی ظاہرنہیں کی۔ایم کیوایم کے بعض لاپتہ افراد کا بیس سال گزرنے کے باوجودتاحال پتہ نہیں چل سکا۔عشت العبادنے لاپتہ افرادکے لواحقین کوپلاٹ اورایک نوکری دی اورمعاملہ ختم کردیا۔جسٹس (ر) جاویداقبال کے مطابق اس وقت ایم کیوایم کے چودہ لاپتہ افرادکے کیسزکمیشن کے پاس ہیں۔ایم کیوایم کے لاپتہ افرادکی تعدادخطرناک حدتک تجاوزکرگئی ہے ۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔کمیشن کے پاس ایم کیوایم کارکنان نے انتیس کیسززیرالتواہیں جوسال انیس سو بیانوے سے انیس سوپچانوے تک کے ہیں۔ایم کیوایم کی اپنے لاپتہ افرادکے معاملے میں عدم دل چسپی کئی سوالات کوجنم دے رہی ہے۔اختیارملنے کے باوجود ایم کیوایم کااپنے لاپتہ افرادکے بارے میں سنجیدگی نہ دکھانامعاملے کومزیدسوالیہ نشان بنارہا ہے۔ٍٍٍٍٍٍٍٍیہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایم کیوایم کے لیے کارکنان کی اس وقت اہمیت ہوجب بھی ان کی ضرورت ہو، کارکنوں کی اس طرح کی اہمیت صرف ایم کیوایم ہی نہیں دیگرسیاسی اورمذہبی تنظیموں میں بھی پائی جاتی ہے۔جب کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے، جب جلسہ میں زیادہ تعداددکھاکرمخالفین کے خلاف رعب جماناہوتاہے ،جب کسی کے خلاف احتجاج کرناہوتاہے،جب جلاؤ ، گھیراؤ اور مظاہرے کرنے ہوتے ہیں ، جب گلے پھاڑپھاڑ کرنعرے لگانے ہوتے ہیں اس وقت کارکنوں کی اہمیت ہوتی ہے اس وقت ان کی خبرگیری بھی کی جاتی ہے اوران کی خیریت بھی دریافت کی جاتی ہے۔ جس وقت کارکنوں کی ضرورت نہیں ہوتی توان سے اس طرح لاتعلقی اختیارکرلی جاتی ہے جیسے کبھی کوئی تعلق واسطہ رہاہی نہ ہو۔ہوسکتا ہے ایم کیوایم کی اپنے لاپتہ افرادکے معاملے میں عدم دل چسپی بھی اسی وجہ سے ہو۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایم کیوایم اپنے لاپتہ افرادکی کارکردگی سے مطمئن نہ ہواس لیے انہیں تلاش کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔جسٹس (ر) جاویداقبال نے بتایا کہ مشرف دورحکومت میں وزیرداخلہ آفتاب شیرپاؤنے چار ہزار پاکستانی غیرملکیوں کے حوالے کئے ،پرویزمشرف نے پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کرنے کااعتراف بھی کیا۔مشرف اورشیرپاؤکے اقدامات کے خلاف پارلیمنٹ میں آوازنہیں اٹھائی گئی۔پارلیمنٹ کومشرف اورشیرپاؤ کے اقدامات کی تحقیقات کرانی چاہیے تھی۔پوچھاجاناچاہیے تھا کہ آخرکس قانون کے تحت پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کیاگیا۔جسٹس (ر) جاویداقبال نے بتایا کہ حوالگی کاکوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کوخفیہ طریقے سے غیر ملکیوں کے حوالے کیاگیا۔جس کے عوض ڈالرزحاصل کیے گئے یہ نہ پوچھاجائے کہ کتنے ڈالرزملے۔جسٹس (ر) جاویداقبال کے اس انکشاف کے بعد توامریکیوں کی اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ پاکستانی اپنی ماں کوبھی بیچ دیتے ہیں۔وہ مشرف جواپنی عوام کے سامنے مکالہراکراپنی طاقت دکھایاکرتا تھا اس کی یہ طاقت ڈالروں کے سامنے پانی کابلبلہ ثابت ہوئی۔ اس نے اوراس کے وزیرداخلہ آفتاب شیرپاؤنے چندڈالروں کی خاطرپاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کردیا۔جسٹس (ر) جاویداقبال شکوہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں مشرف اورآفتاب شیرپاؤ کے اقدامات کے خلاف آوازنہیں اٹھائی گئی، ان سے پوچھاجاناچاہیے تھا کہ کس قانون کے تحت پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کیاگیا۔اس پارلیمنٹ میں کس طرح مشرف کے پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کرنے کے خلاف آوازاٹھائی جاتی جوپارلیمنٹ مشرف کودس باربارودی صدرمنتخب کرنے کے خواب دیکھاکرتی تھی۔جس پارلیمنٹ نے مشرف کی ہرآوازاورہراقدام پرآمناوصدقنا کہا ہووہ پارلیمنٹ اس سے کس طرح پوچھ سکتی تھی کہ اس نے کس قانون کے تحت پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کیا۔پارلیمنٹ میں تویہ حوصلہ بھی نہ تھا کہ وہ مشرف سے کوئی بات پوچھ سکتی۔پارلیمنٹ کے علاوہ بھی ملک میں فورم موجودہیں جومشرف سے پوچھ سکتے تھے کہ اس نے کس قانون کے تحت پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کیا۔جس طرح پیسہ بیرون ملک بھیجنے، آف شورکمپنیاں بنانے، غیرملکی کمپنیوں میں کام کرنے اوراقامہ رکھنے والوں کے خلاف عدلیہ میں کیسزکی سماعت ہورہی ہے اسی طرح پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کرنے والوں کے خلاف بھی کیسزکی سماعت ہونی چاہیے۔ ان کاکہناہے کہ ملک دشمن ایجنسیزبھی لاپتہ افرادکے معاملے میں ملوث رہی ہیں۔یہ ایجنسیزلوگوں کواٹھاکرآئی ایس آئی اورایم آئی پرالزام لگاناچاہتی ہیں۔اس معاملے کواقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں اٹھایاجاناچاہیے ۔جسٹس (ر) جاویداقبال نے کہا کہ غیرملکی این جی اوزپرپابندی کے حق میں ہوں کیوں کہ یہ ملک کی بجائے غیرملکیوں کے مفادمیں کام کررہی ہیں۔انہیں فنڈنگ بھی غیرملکیوں سے مل رہی ہے۔میرے اختیار میں ہوتا تواین جی اوزپرپابندی عائدکرچکاہوتا۔لیکن سیاسی مصلحت آڑے آجاتی ہے۔شکیل آفریدی کے کردارسے بین الاقوامی این جی اوزکے کردارکوپرکھاجاسکتاہے ۔غیرملکی این جی اوزکے کردارپراس سے پہلے بھی بات ہوچکی ہے۔ غیرملکی این جی اوز کاپاکستان دشمن کردارسیلاب اورزلزلہ کے دوران انسانی ہمدردی کی آڑمیں بھی سامنے آیا تھا، غیرملکی این جی اوزکی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے این جی اوزکی جانچ پڑتال بھی کی گئی ، کئی غیرملکی این جی اوزپرپابندی بھی لگائی گئی۔اب غیرملکی این جی اوزکاپاکستانیوں کولاپتہ کرنے کاکرداربھی سامنے آگیا ہے اس انکشاف کے بعد توکسی بھی غیرملکی این جی اویاتنظیم کوپاکستان میں کام کرنے کی اجازت دینے سے پہلے انتہائی احتیاط سے کام لیناہوگا۔جسٹس (ر) جاویداقبال نے بتایا کہ بلوچستان میں لاپتہ افرادکے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمارحقائق کے برعکس ہیں۔بلوچستان میں مختلف گروپ ہیں اورکئی لوگ ان کے ساتھ چلے گئے ہیں۔سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اورنصراللہ بلوچ کوفہرست فراہم کرنے کاکہاتھا لیکن کوئی فہرست فراہم نہیں کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ کمیشن کولاپتہ افرادکے چارہزاردوسوانتیس کیسزموصول ہوئے ۔مارچ سال دوہزارگیارہ سے فروری دوہزاراٹھارہ تک کمیشن نے تین ہزاردوسوانیس کیسزانمٹادیئے۔اس وقت کمیشن کے پاس لاپتہ افرادکے ایک ہزارسات سودس کیسززیرتحقیقات ہیں۔گزشتہ دوسال میں کمیشن کواقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افرادکی جانب سے تین سواڑسٹھ کیسزموصول ہوئے جن میں سے زیادہ ترکاتعلق سندھ سے ہے۔ اگست سال دوہزارسولہ میں کراچی سے اڑسٹھ لاپتہ افرادپتہ لگایا گیا جو یا جیل میں تھے یاگھرواپس لوٹ چکے تھے۔جسٹس (ر) جاویداقبال کے مطابق کراچی سے تین سواڑسٹھ لاپتہ افرادکیسزمیں سے تین سونونمٹادیئے گئے۔مئی دوہزار سترہ میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کے جنیوامیں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے خلاف لاپتہ افرادکے سات سو۳۲ کیسزدرج ہوئے ان میں سے اب ۵۰۵ نمٹادیئے گئے ہیں۔تاہم دوسواٹھارہ کیسز کمیشن کے پاس زیرالتواہیں۔ان میں چودہ افغان شہریوں کے مقدمات بھی ہیں نوانیس سوبیاسی سے انیس سو چھیاسی میں پاکستان سے لاپتہ ہوئے۔کمیٹی کی رکن نسیمہ حفیظ سے کہا کہ ملک میں منظورپشتین کومیڈیاپرنظراندازکیاجارہا ہے۔وہ لاپتہ افرادکی بات کررہا ہے اس کے جلسے میں وہ خواتین شریک تھیں جن کے ہاتھوں میں ان کے خاندان کے دو، تین لاپتہ افرادکی تصاویرتھیں۔منظورپشتین سے رابطہ کروں گا اوران سے لاپتہ افرادکی فہرست لے کرمعاملے کودیکھوں گا۔

لاپتہ افرادکمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاویداقبال کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کودی گئی بریفنگ سے یہ واضح ہوتاہے کہ لاپتہ افرادکامعاملہ تیس سے پینتیس سالوں پرمحیط ہے۔ انہوں نے کمیشن کوبتایا ان کے پاس چودہ افغان شہریوں کے کیسزبھی ہیں جوسال انیس سوبیاسی سے چھیاسی کے درمیان لاپتہ ہوئے ، اس وقت جنرل (ر) ضیاء کی حکومت تھی۔ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کودی گئی بریفنگ میں سال انیس سوبیانوے سے انیس سو پچانوے کادورانیہ بھی بتایا گیا ، اس دوران نوازشریف اورشہیدبے نظیربھٹو کی حکومتیں رہی ہیں۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہردورحکومت میں پاکستانی لاپتہ ہوتے رہے ہیں۔زیادہ ترپاکستانی مشرف کے دورحکومت میں لاپتہ ہوئے۔ لاپتہ افرادکامعاملہ زرداری دورحکومت میں زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آیا۔ یہ معاملہ جسٹس (ر) افتخارچوہدری کی عدالت میں بھی زیرسماعت رہا۔جسٹس (ر) جاویداقبال کی بریفنگ کی روشنی میں لاپتہ افرادکے کیس کوعدالت عظمیٰ میں پھرسے سماعت ہوناچاہیے ۔پاکستانیوں کولاپتہ کرانے اورغیرملکیوں کے حوالے کرنے میں جوبھی ملوث ہیں سب کے خلاف بلاامتیازکارروائی ہونی چاہیے ۔ پاکستانیوں کوغیرملکیوں کے حوالے کرکے جوڈالرزلیے گئے ہیں وہ قومی خزانہ میں جمع کرائے جائیں۔ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث غیرملکی این جی اوزکے خلاف بھی از سر نوکارروائی ہونی چاہیے

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300820 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.