ٍ تحریکِ انصاف نے نگران وزیرِاعظم کے لیے سابق چیف جسٹس
تصدق حسین جیلانی اور سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام پیش کر
دیئے۔ قائدِحزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ حیران بلکہ پریشان کہ تحریکِ انصاف
نے اُنہیں بتائے بغیر نگران وزیرِاعظم کے لیے مجوزہ ناموں کا اعلان کیسے کر
دیا۔ آئین کی رو سے قائدِایوان (وزیرِاعظم) اور قائدِحزبِ اختلاف کی مشاورت
سے نگران وزیرِاعظم کا تقرر ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہو تو
معاملہ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی میں پیش ہوتا ہے جس
میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی برابر تعداد ہوتی ہے۔ اگر کمیٹی بھی کسی
ایک نام پر متفق نہ ہو سکے تو پھر الیکشن کمیشن مجوزہ ناموں میں سے کسی ایک
کو نگران وزیرِاعظم مقرر کرتا ہے۔ اِس سارے معاملے میں قائدِ ایوان اپنے
اتحادیوں اور قائدِ حزبِ اختلاف دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مشورہ تو کر سکتے
ہیں لیکن یہ ضروری بھی نہیں۔
ہمارے ’’بھولے بادشاہ‘‘ سیّد خورشیدشاہ حیران ہیں کہ قائدِ حزبِ اختلاف تو
وہ ہیں لیکن ناموں کا اعلان تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔ شاید شاہ صاحب کو ابھی
تک ادراک نہیں ہوا کہ اگلے وزیرِاعظم عمران خاں ہی تو ہیں جنہوں نے
سیّدصاحب کو نہ کبھی قائدِ حزبِ اختلاف سمجھا اور نہ ہی سمجھنے کو تیار ہیں
اب اگر کوئی نگران وزیرِاعظم کے نام پر چیں بچیں ہوتا ہے تو ہوتا رہے ۔
ویسے ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ کپتان نے تصدق حسین جیلانی کا نام
کیسے پیش کر دیا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا وقت آیا
تو تصدق جیلانی صاحب کا نام بھی زیرِگردش تھا ۔ تب کپتان نے بھرے مجمعے میں
کہا ’’تصدق جیلانی صاحب ! آپ بہت اچھے ہیں لیکن آپ ہمیں بطور چیف الیکشن
کمیشنر قبول نہیں‘‘۔ بعد ازاں جیلانی صاحب نے خود ہی انکار کر دیا ۔ حیرت
ہے کہ کپتان کوجیلانی صاحب پر بطور اچیف الیکشن کمشنر تو اعتبار نہیں تھا
لیکن اب بطور نگران وزیرِاعظم وہ کیسے قبول ہو گئے؟۔ شاید یہ بھی عدلیہ کو
خوش کرنے کا ایک بہانہ ہو۔ ہمارا خیال ہے کہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی ،دونوں
کو ہی تحریکِ انصاف کی تجویز کو قبول کر لینا چاہیے۔ اِس کا فائدہ یہ ہو گا
کہ اگر عام انتخابات میں تحریکِ انصاف ایک دفعہ پھر ہزیمت کا شکار ہو گئی
تو کپتان یہ نہیں کہہ سکیں گے ’’کتنے میں بِکے؟‘‘۔ اِس لیے اِس سے پہلے کہ
کپتان حسبِ عادت یوٹرن لیتے ہوئے اپنے ہی تجویز کردہ نام سے مُکر جائیں،
دونوں بڑی جماعتوں کو ’’فَٹافَٹ‘‘ یہ نام قبول کر لینا چاہیے کہ اِسی میں
سب کا بھلا ہے۔ 2013ء سے پہلے احسن اقبال نے عمران خاں کو یہ آفر کی تھی کہ
وہ اپنی مرضی کا چیف الیکشن کمشنر، نگران وزیرِاعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ
لے آئیں لیکن لکھ کر دے دیں کہ وہ انتخابی نتائج آنے پر دھاندلی کا شور
نہیں مچائیں گے۔ اُس وقت تو کپتان نے خود کوئی نام تجویز نہیں کیا تھا لیکن
اب تو وہ نام بھی تجویز کر چکے۔
طلال چودھری کہتے ہیں کہ پنجاب میں نون لیگ کا مقابلہ ’’لوٹالیگ‘‘ سے ہوگا۔
کیا طلال چودھری نہیں جانتے کہ میاں نوازشریف تو نااہل ہو چکے اور اُن کے
باقی ساتھی (طلال چودھری سمیت) اِسی راہ پر قطار اندر قطار گامزن ہیں۔ ہم
تو اُنہیں عقل سے پیدل ہی سمجھتے ہیں جو ابھی تک میاں نوازشریف کا دَم بھر
رہے ہیں۔ عقلمند لوگ تو ’’صادق وامین‘‘ کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے دَھڑادَھڑ
تحریکِ انصاف میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ احتساب سے بچ سکیں اور اڈیالہ جیل
بھی اُن کی منتظر نہ ہو۔ اب تو تحریکِ انصاف میں ’’لوٹوں‘‘ کا مینابازار
لگا ہوا ہے۔ چھوٹے بڑے کئی لوٹے شامل ہو چکے اور باقی تیار بیٹھے ہیں۔شاید
سبھی لوٹوں کو یقین ہو چکا کہ اب ’’زورآوروں‘‘ کے ہاں نوازلیگ کی کوئی
گنجائش ہے نہ پیپلز پارٹی کی۔ اب یا تو عمران خاں کے سَر پر وزارتِ عظمیٰ
کا تاج سجے گا یا پھر ’’ہَنگ پارلیمنٹ‘‘۔ ویسے ہمارا خیال ہے کہ زورآوروں
کو ہنگ پارلیمنٹ زیادہ پسند ہے۔
ہماری انتہائی محترم اعلیٰ عدلیہ بھی تحریکِ انصاف کی بابت ’’ہَتھ ہَولا‘‘
رکھے ہوئے ہے۔ شامت آئی ہوئی ہے تو پنجاب اور سندھ کی جہاں ’’بابارحمت‘‘ کے
ڈیرے اور اَزخود نوٹسز ہیں، خیبرپختونخواہ کو تو کوئی پوچھتا ہی
نہیں۔اکابرینِ نوازلیگ کی شامت آئی ہوئی ہے ، بیچارے خواجہ سعدرفیق سپریم
کورٹ سے ’’شاباشی‘‘ لینے گئے لیکن ہوا یہ کہ اُنہیں ’’نیوے نیوے ‘‘ ہو کر
گھر لَوٹنا پڑا۔ اُسے دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دال میں کچھ
کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔اب سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس
پر بھی ہاتھ ڈال دیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو اپنے منطقی انجام تک ضرور
پہنچنا چاہیے اور اِس کے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنا دینا بھی ضروری لیکن
سوال یہ ہے کہ ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کو یہ سب کچھ عین اُس وقت کیوں یاد آ
رہا ہے جب عام انتخابات سَر پر ہیں؟۔
محترم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہا بالکل بجا کہ ’’بابا رحمت‘‘ کی عزت
کی جانی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بابا رحمت تو ہوتا ہی لائقِ تعظیم وتکریم
ہے اوراُس کا عصائے عدل ہر کسی کے لیے یکساں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ہمیں یہاں
معاملہ کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ بابا رحمت کا عصائے عدل نوازلیگ کی تو خوب
خوب خبر لے رہا ہے لیکن کچھ لوگوں سے صَرفِ نظر بھی جاری۔ کپتان کو صادق
وامین کا سرٹیفیکیٹ عنایت کیا جاتا ہے جبکہ اُن کی صداقتوں کا یہ حال ہے کہ
وہ متعدد بار جھوٹ بول چکے ہیں اور بولتے رہتے ہیں۔ ایک سچّا انسان بغیر
ثبوت کے کبھی کسی پر تہمت نہیں لگاتا لیکن خان صاحب نے تو تہمتوں کی آڑھت
سجا رکھی ہے اوراُن کے یوٹرن تو زبان زدِعام ہو چکے۔پھر بھلا ایسے شخص کو
’’صادق‘‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟۔ کیا کسی شخص کی صداقتوں اور امانتوں
کو صرف اُسی وقت پرکھا جائے گا جب وہ الیکشن کمیشن میں کاغذاتِ نامزدگی جمع
کروائے گا؟۔
آج خاں صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ ججز اور واجد ضیاء مت گھبرائیں ،تحریکِ
انصاف اُن کے ساتھ کھڑی ہے ۔ ویسے ہمارے انتہائی محترم جج صاحبان خوب جانتے
ہوں گے کہ کپتان کی بڑھکوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔ وہ عدلیہ بحالی تحریک میں
محض چار پانچ دِن جیل میں رہے اور پھر ’’منتیں تَرلے‘‘ کرکے رہا ہوئے۔ میاں
نوازشریف جب عدلیہ بحالی کے لیے لاہور سے قافلہ لے کر عازمِ پنڈی ہوئے تو
کپتان کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ وہ راولپنڈی میں کسی جگہ
چھپے ہوئے یہ پیغام دے رہے تھے کہ جب قافلہ راولپنڈی پہنچے گا تو اُس کے
ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ بہانہ اُن کا یہ تھا کہ اگر وہ باہر آئے تو اُنہیں
گرفتار کر لیا جائے گا۔ بعد میں یہی کپتان صاحب عدلیہ بحالی تحریک کا کریڈٹ
لیتے ہوئے بھی پائے گئے حالانکہ حقیقت یہ کہ اُن کا تو اِس تحریک میں آٹے
میں نمک کے برابر بھی حصّہ نہیں تھا۔جِن بیچاروں نے عدلیہ بحالی تحریک کو
منطقی انجام تک پہنچایا ،اُنہیں تو خوب ’’رَگڑا‘‘ لگ رہا ہے۔ آج کپتان
مقبول اور قابلِ قبول سہی لیکن ہم تو مہربانوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ
’’ذرا بچ کے‘‘۔
|