حکمت عطا کئے جانے کے اسباب
جب یہ بات مسلم ہے کہ جناب لقمان نبی نہیں بلکہ ایک دانا و حکیم شخص تھے تو
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے حکمت کے اسباب و علل بیان کئے جائیں ۔
روایت میں وارد ہواہے کہ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ تو
ایک چرواہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ کیاتو وہی نہیں ہے جو میرے ساتھ فلاں
جگہ بکریاں چرایا کرتا تھا ؟
آپ نے فرمایا:ہاں! میں وہی ہوں ۔
اس نے کہاکہ پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟
ٓٓآپ نے فرمایا:سچ بولنے اور بے کار کلام نہ کرنے سے ۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اﷲ کافضل
اورامانت کی ادائیگی اور کلام کی سچائی اوربے نفع کاموں کو چھوڑدینا۔(ابن
کثیر ،مفسر ابوالفداء اسمٰعیل ابن عمر ابن کثیر ،جلد ۴ صفحہ ۴۹ناشر ،فواز
نیاز،مطبع نواز پرنٹنگ پریس ،لاہور )
روایت میں وارد ہواہے کہ ایک شخص نے لقمان سے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ
آپ ہمارے ساتھ مل کر بکریاں چرایا کرتے تھے؟
آپ نے جواب دیا :ہاں ! ایسا ہی ہے ۔
اس نے پوچھا تو پھر آپ کو یہ سب علم و حکمت کہاں سے نصیب ہوا؟
آپ نے فرمایا:’’قدراﷲ واداء الامانۃ و صدق الحدیث والصمت عما لایعنی‘‘
اﷲ کی قدرت ،امانت کی ادائیگی ،بات کی سچائی اورجو چیز مجھ سے تعلق نہیں
رکھتی اس سے خاموشی اختیار کرنے سے۔(مجمع البیان در ضمن تفسیر سورہ لقمان )
بعض روایت میں وارد ہو اہے کہ حضرت لقمان نے فرمایا:چند کام ایسے ہیں جنہوں
نے مجھے اس درجہ پر فائز کیا۔اگر تم بھی اختیار کرلوتو تم بھی اس مقام
ومرتبہ تک رسائی کرلوگے ۔اور وہ مندرجہ ذیل ہیں ؛
اپنی نگاہوں کو پست رکھنا ،زبان کو بند رکھنا ،حلال روزی پر قناعت
کرنا،اپنی شر مگاہ کی حفاظت کرنا،بات میں سچائی پر قائم رہنا،عہد کو پورا
کرنا،مہما ن کا اکرام کرنا،پڑوسی کی حفاظت کرنا،فضول کام اورفضول کلام کو
ترک کرنا۔(معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع جلد ۷ صفحہ ۳۵طبع ادارۃ المعارف ،کراچی
،پاکستان )
موطاامام مالک میں ہے کہ جناب لقمان سے دریافت کیاگیاکہ آپ کو علم و فضل
ملنے کاسبب کیاہے؟
آپ نے فرمایا:تین باتوں پر عمل کرنے سے یہ مقا م حاصل ہواہے ۔
(۱) سچی باتیں کرنا۔
(۲)امانت ادا کرنا۔
(۳)بے مطلب کاموں کو چھوڑدینا۔(مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۴۴۵)
حضر ت امام جعفر صادق نے فرمایا:بے شک جو حکمت جناب لقمان کو عنایت ہوئی
تھی وہ ان کے حسب و نسب ،مال وجمال اور جسم کی بناء پر نہ تھی۔بلکہ وہ ایک
ایسے مرد تھے جو حکم خدا کی انجا م دہی میں قوی اور طاقت ور تھے ۔گناہ اور
شبہات سے اجتناب کرتے تھے ۔بہت زیادہ ساکت اور خاموش رہتے تھے ۔خوب غور و
خوض کے ساتھ دیکھا کرتے تھے۔بہت زیادہ سوچا کرتے تھے۔تیز بین اوردن کے اول
حصہ میں کبھی نہیں سوتے تھے ۔ مجالس میں مستکبرین کی طرح تکیہ نہیں لگاتے
تھے۔اداب کو پوری طرح مد نظر رکھتے تھے۔لعاب دہن نہیں پھینکتے۔کسی چیز نہیں
کھیلتے ۔کبھی بھی غیرمناسب حالت میں انہیں دیکھا نہیں گیا۔․․․جب بھی
دوآدمیوں کولڑتا جھگڑتا دیکھتے ان کے درمیان صلح کرادیتے ۔اگر کسی سے کوئی
اچھی با ت سنتے تو اس کاحوالہ ،ماخذ اور تشریح تفسیر ضرور پوچھتے ۔فقہاء و
علماء کے ساتھ زیادہ نشست و برخاست رکھتے ۔․․․ایسے علوم کی طرف جاتے جن کے
ذریعہ ہوائے نفس پر غالب آسکیں ۔اپنے نفس کا علاج قوت فکر و نظر ،سوچ بچار
اور عبرت سے کرتے اور صرف ایسے کا م کی طرف جاتے جو ان کے دین اور دنیا کے
لئے سودمند ہو۔جو امور ان سے متعلق نہیں ہوتے اس میں دخل اندازی نہیں کرتے
۔اسی بناء پر اﷲ نے انہیں حکمت ودانائی عطا کی تھی ۔(تفسیر نمونہ زیر نظر
آیۃ․․․ناصر مکارم شیرازی جلد ۹صفحہ ۴۳۴ناشر مصباح القرآن ٹرسٹ )
مختلف آثار میں جناب لقمان کے چند اخلاق و اطوار بیان کئے گئے ہیں جن کے
سبب ا ن کوحکمت عطا ہو ئی تھی منجملہ :
خدا کے نیکو کار بندے تھے ۔
دن میں نہیں سوتے تھے۔
محفل میں تکیہ کاسہار انہیں لیتے تھے ۔
اس قدر باحیاتھے کہ ان کو پیشاب و پاخانہ اور غسل کرتے کبھی کسی نے نہیں
دیکھا ۔
کسی چیز سے کھیلتے نہیں تھے ۔
خوف خدا سے ہنستے نہیں تھے۔
دنیا کی کوئی چیز مل جاتی تو خوش نہیں ہوتے تھے اور اگر کوئی چیز ضائع
ہوجاتی تو غمزدہ نہیں ہوتے تھے ۔
کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔
لڑنے والوں میں صلح کراتے تھے۔
کوئی اچھی بات سنتے توقائل سے اس کی وضاحت کراتے اور پھر اسے یاد کرلیتے ۔
فقہاء و حکماء کی ہمنشینی اختیا ر کرتے تھے ۔
حکام کی تفتیش اور ان پر تنقید کیاکرتے تھے وغیرہ ․․․۔(تفسیر صافی در ضمن
سور ہ لقمان )
|