سب ہوم ورک کر رہے ہیں

سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو کی گزرے ہفتے لاہور آمد کے بعد سے جہاں ایک طرف نئے سیاسی اتحادی کی قیاس آرائیاں زوروں پر رہی ہیں وہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کے انتہائی غیر متوقع طرز عمل نے بھی بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے ۔ ہلچل کا سبب بننے والی جماعتوں میں اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومتی اتحادی بھی پیش پیش ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس ہلڑ بازی کے باوجود سیاسی شانتی کا راگ الاپنے والوں پر کوئی بھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ بات ہے بھی درست، کیونکہ اگر موجودہ تیزی اپوزیشن کی پیدا کردہ ہوتی تو سب اسے ”فرینڈلی“ کہہ کر خاموش ہوجاتے لیکن اب صورت حال ایسی نہیں۔ جے یو آئی سے لے کر ایم کیو ایم جیسی اہم ترین اتحادی جماعتوں کے نعرے بازی روز بروز شدت پکڑتی جارہی اور اسی شدت کے پیش منظر میں بہت سوں کو ”کچھ“ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ عوام کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہمارا مزاج بھی اب تبدیلی کا خواہاں ہے لیکن کیا کیجئے کہ لاکھ باریک بینی کے باوجود ”خوشخبری“ ہے کہ ہاتھ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ذرا آسان الفاظ میں مطلب یہی ہے کہ سیاسی راوی سر دست چین ہی چین لکھ رہا ہے لیکن بہت سے احباب کو ہمارے اس مشاہدے سے خاصا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی وجہ اگرچہ سیاسی معلومات تو نہیں لیکن ایک سوال جو سبھی کی جانب سے سامنے آتا ہے وہ ”تو پھر یہ سب کیا ہے؟“ کے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے خصوصاً متوالے اور دیگر حکومت مخالف جماعتوں کے کارکنان کچھ زیادہ ہی زور دیکر جواب پر اصرار کرتے ہیں۔

صرف سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ اکثر عام شہری بھی یقینی طور پر اسی شش وپنج میں ہیں کہ حالیہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا مقصد آخر کیا ہے؟نمبر گیم اور اعداد و شمار اگرچہ سب کی دسترس میں ہیں لیکن تجزیہ کرنے کا وقت شاید کسی کے پاس نہیں لہٰذا یہ فریضہ بھی اپنے ذمے لیتے ہوئے ان سطور کے ذریعے مختصر اور حتمی جواب یہی ہے کہ سیاسی بساط پر اپنی اپنی چال چلنے والے نہ تو کسی کو گھر بھیجنے کی تیاریوں میں ہیں اور نہ ہی کوئی نیا اتحاد بن رہا ہے بلکہ سب اس ”امتحان“ کی تیاری میں جت گئے ہیں جو دو سال بعد سامنے آنے والا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ غیر محسوس طریقے سے جارحانہ انداز اپناتے سیاسی قائدین اپنی اپنی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں لانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں یا پھر عوام حسب سابق ”سب کچھ“بھول کر ان سیاسی کٹھ پتلیوں کے گروید بن جاتے ہیں یہ الگ بحث ہے لیکن فی الحال حکومتی اتحادیوں اور مخالفین کے نزدیک سب سے اہم اپنی اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سنبھالا دینے کے سوا کوئی مقصد نہیں سارا شور شرابہ اسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جارہا ہے جس میں آنے والے دنوں یا مہینوں میں مزید شدت آتی جائے گی۔

حکومتی اتحادیوں یا پھر اقتدار کو بائے بائے کہنے والوں کو دیکھیں تو سب سے پہلے جے یو آئی پر نظر پڑتی ہے۔ چھ ارکان اسمبلی کی تعداد پر مشتمل اس جماعت نے گزشتہ تین برسوں میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر جتنے مزے لوٹے ہیں اس کی مثال پوری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کل چھ ارکان اسمبلی میں سے چار وزارتوں پر براجمان رہے جبکہ باقی ماندہ دو کو بھی اہم حکومتی عہدوں سے نوازا گیا، اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن کے روایتی”تحفظات“ نے اچانک سر اٹھا لیا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ وہ کشتیاں جلانے کے مصداق واپسی کے تمام دروازے بند کرکے اقتدار کے ایوانوں سے نکل چکے ہیں۔ بات اگر نئی سیاسی اتحاد یا پھر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ہوتی تو مولانا اور ان کے پیروکار کبھی بھی یہ ”رسک“ نہ لیتے کہ اپنی عددی حیثیت سے وہ خود بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ حقیقت صرف اور صرف یہ ہے کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے موجودہ دور میں اتنا”زاد راہ“ جمع کر لیا ہے کہ آنے والے انتخابات کے اخراجات باآسانی پورے ہو سکتے ہیں اور اس طرف سے مطمئین ہونے کے بعد ہی مولانا اینڈ کمپنی نے پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ سے خوفزدہ ہونے کا بہانہ بناکر ”اب مزید ساتھ نہیں چل سکتے“ کا نعرہ لگا دیا ہے اور معتبر ترین ذرائع کے مطابق چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں عشایئے کے وقت ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کی فضل الرحمن سے ون ٹو ون ملاقات میں تمام مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کے باوجود”ناں“ کی گردان جاری رکھے ہوئے ہے جو ایک طرف ”بروقت“ حکومت سے علیحدہ ہونے کے سبب حکومت کے خاتمے کے بعد ممکنہ طور پر لگنے والے الزامات سے بچنے کی کامیاب چاہ ہے تو دوسری جانب عوامی رابطے فعال بنانے کا گر بھی ہے ، لہٰذا اس غیر متوقع علیحدگی کا مقصدانتہائی واضح ہے۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے بعد ایم کیو ایم مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی اتحادی ہے ۔ تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی حالات کا ادراک کرتے ہوئے متحدہ قیادت نے بھی دونوں ہی حکومتوں سے علیحدگی پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے وفد کی ایوان صدر میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد اگرچہ حالات معمول پر آنے کے دعوے کئے جارہے تھے لیکن ہفتے کے روز بھٹ شاہ میں الطاف حسین کے جارحانہ خطاب اور پھر ایم کیو ایم کو حکومت کا ساتھ دینے یا علیحدگی بارے جلد فیصلہ کرنے کے مشورے کے بعد حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے اور کسی بھی وقت نائن زیرو سے بھی ”خداحافظ“ کا نعرہ بلند ہو سکتا ہے کیونکہ ایم کیو ایم بھی اب اگلے الیکشن کی تیاریوں کی فکر میں ہے اور اگر وہ اب یا کبھی نہیں کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کرتی تو یقینی طور پر ووٹ بینک پر منفی اثرات پڑیں گے جو الطاف حسین اور دوسرے قائدین کسی بھی صورت نہیں چاہیں گے، بعض باخبر تو یہاں تک کہہ رہے کہ الطاف حسین کے بھٹ شاہ میں جلسے کے بعد ایم کیو ایم نے گویا اندرون سندھ سے غیر اعلانیہ انتخابی مہم شروع کر دی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید فعال ہوتی جائے گی تاہم ایم کیو ایم کی ممکنہ سرخ جھنڈی بھی پیپلز پارٹی کے لئے خطرے کی گھنٹی نہیں ہوگی کہ اس صورت میں کوئی بھی سیاسی مستقبل نہ ہونے کی فکر میں مبتلا ق لیگ متبادل کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔

صرف حکومتی اتحادی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں بھی مستقبل محفوظ بنانے کی فکر میں ہیں۔ ن لیگ ہی کو لیجئے، نواز شریف اور ان کے حواری آہستہ آہستہ مفاہمتی خول سے باہر آرہے ہیں کہ پنجاب بچانے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ ہیں نہیں۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ رائے ونڈ کیمپ اب سندھ میں پاﺅں جمانے کے لیے ہوم ورک بھی کر رہے ہیں اور ممتاز بھٹو کا حالیہ دورہ پنجاب بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ممتاز بھٹو اگرچہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن ن لیگ کا آغاز بہرحال اچھا ہے اور اگر وہ ممتاز بھٹو ہی کی طرح دیگر چھوٹے موٹے سیاسی دھڑوں کا اعتماد( کچھ دو ، کچھ لو کی بنیاد پر ہی سہی)حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی تصور ہوگی جس کا میاں برادران کو بھی ادراک ہے اور اب کی بار وہ پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھ کارڈ کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے منصوبہ بندی مکمل کر چکے ہیں جس پر عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور یہ بھی آئندہ الیکشن کی تیاریوں ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.