٢٥ دسمبر ٢٠١٠ کو ایم کیو ایم نے
بھٹ شاہ میں ایک عظیم الشان جلسہ کا اہتمام کیا جس میں اندرون سندھ سے
لاکھوں سندھی بولنے والے حق پرست عوام نے شرکت کی، یہ جلسہ ایک عاقبت نا
اندیش کاروائی کے جواب میں سندھ دھرتی کے سپوتوں کی محبت بھری کاروائی تھی
جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ سندھ میں مستقل طور پر آباد تمام لوگ
سندھ دھرتی ہی کے سپوت ہیں، قائد تحریک الطاف حسین بھائی نے اپنے عوامی
خطاب میں عوام سے اپنے دل کی باتیں کیں اور انہیں یہ باور کرایا کہ وہ سندھ
دھرتی کے غریب باسیوں پر جو ظلم اور زیادتی ہوتی رہی ہے انشا اللہ اپنے ان
سندھی بھائیوں کے تعاون سے انہیں جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد کر کے دم لیں
گے اور انشا اللہ پورے سندھ میں اسی پیمانے پر ترقی ہوگی جس طرح کی ترقی
کراچی اور دوسرے حق پرست علاقوں میں ہوئی۔
الطاف حسین بھائی نے بھٹ شاہ میں جو شاندار جلسہ کیا ہے اس میں شریک لوگوں
میں اردو اور سندھی بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود تھی اور اپنے حلقہ
انتخاب سے سینکڑوں اور اپنے رہائشی گھر سے ہزاروں میل دور موجود الطاف
بھائی کا یہ جلسہ کراچی کے لال قلعہ یا جناح گراؤنڈ کی طرح کا منظر پیش کر
رہا تھا۔
کیا اس جلسے میں بھی بقول جلنے والوں اور بغض رکھنے والوں کے لوگوں کو
اسلحہ کے زور پر جمع کیا گیا تھا اور وہ بھی مرزا جیسے وزیر داخلہ کے ہوتے
ہوئے۔
دوسری طرف لاہور میں میاں نواز شریف صاحب کے بھائی میاں شہباز شریف صاحب کی
حکومت ہوتے ہوئے جس طرح ٢٥ دسمبر کا ان کا ایک ہال میں جلسہ بد انتظامی کا
شکار رہا اور ن لیگ اور ق لیگ کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے رہے
وہ بھی قوم نے دیکھا اور بھٹ شاہ میں الطاف بھائی کا جلسہ بھی لوگوں نے
دیکھا۔
بھٹ شاہ میں پنڈال میں موجود حاضرین و شرکا سے الطاف حسین نے کہا کہ وہ نظم
و ضبط کا مظاہرہ کریں اور اپنی نشستوں پر خاموش بیٹھیں انہوں نے ایک دو اور
تین تک گنتی گنی جس کے بعد پورے پنڈال اور اطراف میں شاہراہوں اور گلیوں
راستوں میں موجود لاکھوں شرکا نے ایک دم خاموشی اختیار کی اور پورے علاقے
میں ایسی خاموشی چھا گئی کہ جیسے وہاں کوئی موجود ہی نہیں۔ جناب الطاف حسین
نے بہترین نظم و ضبط اور خاموشی اختیار کرنے پر تمام شرکا کو شاباشی دی اور
انہیں خراج تحسین پیش کیا جس پر جناب الطاف حسین نے کہا کہ یہ ایم کیو ایم
کا نظم و ضبط ہے جو عزیز آباد سے بھٹ شاہ اور ملک میں ایک ہے۔
بھٹ شاہ کے جلسہ عام میں پورے سندھ سے سندھی عوام و ہمدردوں کے قافلے صبح
ہی سے آنا شروع ہوگئے تھے حیدرآباد، نیوہالا، پرانا ہالا، سنادھان، کھانوٹ،
کنڈو، لبتنی تھورہ، کنڈو روڈ، بھگیا، پنج مورو، نیو سعیدآباد، خاصخیلی
ؤاٹر، سہتا، خیبردور، وڈیروں لعل، سیکھاٹ، بائو ڈیرو، نوتھیانی، مٹھیانی،
بھٹ شاہ، جامشورہ، لاکھا، لاکھڑا پاور ہائوس، بھریا، بدین شہر، گولارچی،
پنگریو، ماتلی، سانگھڑ، ٹنڈو آدم، تنڈ جام، ہوسٹری،ٹنڈو محمد، ٹنڈو حیدر،
ٹندو الہیار،، سکھر، شکارپور، لارخانہ، خیرپور، میرپور خاص، سیٹلائٹ ٹائون،
نوابشاہ، ننوایا، مریم روڈ، قاضی احمد، دولت پور، سکرنڈ، باندھی، قمبر،
شہداد کوٹ، ٹھٹھہ، بدین، سجاول، گھوٹکی، کوٹری، گھارو، جیکب آباد، مورو غرض
دور دور کے علاقوں سے شرکا ایم کیا ایم اور پاکستان کا پرچم تھامے آتے رہے۔
صوبہ سندھ میں وڈیروں، جاگیرداروں نے استحصال جاری رکھنے کے لیے شناخت کے
مسئلے کو اول دن سے متنازع بنا رکھا ہے دوسرے صوبوں میں بھی یہ مسئلہ ہے
لیکن اس کی شدت اس قدر زیادہ نہیں جس کی مثال پاکستان کے سب سے بڑے صوبے
پنجاب کی دی جاسکتی ہے اس وقت پنجاب کی بڑی پارٹی مسلم لیگ ن ہے جس کے لیڈر
میاں نواز شریف ہیں ان کا تعلق کشمیر سے ہے لیکن یہ پنجاب کا بڑا پن ہے کہ
انہیں کشمیری مہاجر نہیں گردانا جاتا بلکہ انہیں پنجابی ہی تصور کیا جاتا
ہے پھر وہ لوگ جو پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے اس علاقے میں رہائش پزیر
تھے جہاں پاکستان وجود میں آیا یہ لوگ اپنے آپ کو سن آف دی سوائل کہتے ہیں
جبکہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کی خاطر قربانیاں دیں، اپنا گھر بار چھوڑا
اور جن کی جدوجہد سے پاکستان وجود میں آیا انہیں بے زمین ہونے کا طعنہ دیا
جاتا تھا اور ابھی تک یہ بدعت جاری ہے۔
ایم کیو ایم میں اس وقت اس کے سندھ سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی ٩٩ فیصدی
تعداد ہے جنہوں نے سندھ دھرتی ہی میں جنم لیا یہ لوگ پیدائشی طور پر سندھی
ہیں اور ان کے آباؤ اجداد وہ ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان آزاد ہوا اور یہ
لوگ جو آج اپنے آپ کو سن آف دی سوائل کہتے نہیں تھکتے۔ انہیں انگریزوں
ہندوؤں اور سکھوں کی غلامی سے نجات کس وجہ سے حاصل ہوئی۔ یہ کن کی قربانیوں
کا ثمر ہے اور پاکستان میں آزادی سے پہلے ان علاقوں میں مسلمانوں کی کیا
حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں دراصل یہ نفاق کی پالیسی صرف ان لوگوں کی
پھیلائی ہوئی ہے جو نہیں چاہتے کہ پاکستان یا سندھ ترقی کرے یہ وہ مراعات
یافتہ طبقہ ہے جس نے انگریزوں کی چاپلوسی کر کے یا پھر پاکستان سے ہندوؤں
اور سکھوں کے چلے جانے کی وجہ سے ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا اور وارث بن
کر وڈیرے اور جاگیردار بن گئے اور اب انہیں ڈر ہے کہ کہیں غریب معصوم عوام
ہوش میں آکر ان سے اپنے استحصال کا جواب نہ طلب کرلے۔
کراچی یا حیدرآباد میں ایم کیو ایم تو ١٩٨٤ میں آئی ہے اردو بولنے والوں کا
اس سے پہلے استحصال کیوں کیا جاتا تھا کیوں ان کی آبادیوں پر اسلحے کے زور
پر چڑھائی کی جاتی تھی کیوں اردو بولنے والوں کو تعلیمی اداروں میں زلیل و
پریشان کیا جاتا تھا۔ دراصل جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو اللہ کی لاٹھی چل پڑتی
ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں ہی میں سے کسی کو چن لیتا ہے اس طرح قائد
تحریک الطاف حسین بھی منظر عام پر آئے اور کراچی اور حیدرآباد کے پڑھے لکھے
نوجوانوں کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔
عوام سوچنے پر مجبور ہے کہ کون ان کا دوست ہے اور کون دشمن۔ الطاف حسین
بھائی کا کردار پوری قوم کے سامنے ہے انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے غریب
اور متوسط طبقے کے لیے کیا کچھ قربان نہیں کیا الطاف بھائی نے اپنے سگے
بھائی، بھتیجے اور پندرہ ہزار کارکنوں کی شہادت کا دکھ سہا ہے لیکن ان کی
شخصیت میں غریب کی محبت اور ان کی بھلائی کا جذبہ ماند پڑنے کے بجائے اس
میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ الطاف بھائی کے اپنے پاس صرف ایک آبائی گھر جو کہ ایک
سو بیس گز پر محیط ہے اور یہ گھر بھی الطاف بھائی نے اپنی پارٹی کے لیے وقف
کر دیا ہے۔ لندن میں الطاف بھائی جس ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں اس کا خرچہ
اور مہینے کے اخراجات ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی اور دوسرے کارکنان پورے
کرتے ہیں الطاف بھائی کا نا کوئی کاروبار ہے اور نا کوئی جاگیر۔
الطاف بھائی انگلینڈ کے شہر لندن میں مقیم ضرور ہیں مگر کیا کسی نے انہیں
کسی سینما شاپنگ سینٹر یا کسی بھی تفریحی جگہ پر دیکھا ہے کہ وہ وہاں وہ
مزے کر رہے ہوں جو ہمارے پاکستان کے لیڈران لندن میں جاکر کرتے ہیں۔ |