سرائیکی جیسی میٹھی زبان گوجری جو اردو کی ماں ہے کے
علاوہ کوئی نہیں اردو کو تو ہمارے کراچی کے مخلوط کلچر نے بگاڑ کے رکھ دیا
ہے پیاری اس لئے ہے کہ پاکستان کی قومی زبان ہے اور اس زبان کی خوبصورتی
میں اس کا عربی حروف تہجی کا ہونا بھی ہے آزادی سے پہلے اردو دشمنوں نے اسے
اس لئے بھی نفرت کی بنیاد بنایا کہ یہ زبان قران کی زبان سے ملتی جلتی
ہے۔دوستو شاکر شجاع آبادی نے کمال کی شاعری کی ہے۔نبی پاک ھضرت محمد ﷺ عربی
کی ایک حدیث مبارک ہے کہ اونٹ کو باندھو اور پھر اسے اﷲ کے حوالے کر
دو۔شاکر کا یہ شعر
توں ڈیوا بال کے رکھ چاء ہوا جانے خدا جانے۔
سچ پوچھیں دل کو چھو لیتا ہے۔اس میں بہت کچھ ہے۔یعنی سادہ سی بات کہ آپ
کوشش کرو جد وجہد کرو پھر اس کا نتیجہ اﷲ پر چھوڑ دو۔رومی ء کشمیر نے بھی
تو یہی کہا تھا کہ مالی دا کم پانی دینا بھر بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم
پھل پھل لانا لاوے یہ نہ لاوے۔
میں اسے اپنی زندگی کے ساتھ جوڑتا ہوں بات تو وہی ٹھیک ہو گی جو من کو لگے
اور کے تذکرے کریں اچھی بات ہے مگر جو آپ ہڈ بیتی کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی
بات ہی کوئی اور ہوتی ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹوں کی درخواستیں
مانگیں۔ہم بھی پیش ہوئے اور درخواستیں دیں۔سوال وہ کر رہے تھے جو ہم سے بہت
بعد اسی قافلے میں آئے۔مزے کی بات یہ ہوئی کے حلف نامے پر انگوٹھا وہ شخص
لگا رہا تھا جس نے میاں نواز شریف کی الیکشن آفر کو مسترد کیا تھا اور
جوابا کہا تھا ابھی تو پاکستان اجڑ کے آیا ہوں پاؤں پے کھڑا ہوں گا تو
الیکشن میں بھی کھڑا ہو جاؤں گا۔یہ ۲۰۰۲ کی بات ہے۔جس وقت سٹیپ پیڈ پر
انگوٹھا لگا رہا تھا اس سمے اپنی ساری زندگی ایک فلم کی شکل میں سامنے آ
گئی۔وہ چند لوگ جو پی ٹی آئی آفس میں بیٹھے دور کی سوچتے تھے وہ دن یاد آئے
وہ دن بھی جب عمران خان متعدد بار ایئر پورٹ سوسائٹی آئے کئی بار سارا دن
ادھر ادھر کے دورے کر کے گھر چھوڑ بنی گالہ چلے گئے۔بائیں کے انگوٹھے کو
اسٹیمپ پیڈ پر لگا رہا تھا سوچ رہا تھا کہ یہ درخواستیں کس کے پاس جائیں
گی۔کون انہیں دیکھے گا اور کون ایک سیاسی کارکن کے مستقبل کا فیصلہ کرے
گا۔حلف نامہ تھا کہ میں اﷲ کو حاضر و ناظر جان کر یہ اقرار کرتا ہوں کہ ٹکٹ
نہ ملنے کی صورت میں آزاد الیکشن نہیں لڑوں گا۔ حلف نامہ کیا تھا ایک شکنجہ
تھا۔سیاسی پارٹیوں میں عجیب قسم کے چاپلوس لوگ ہوتے ہیں ہم عمران خان کو
خان کہہ کر بلا لیتے تھے اب کسی کی جرائت ہے جو ایسے بات کر لے۔ایک صاحب نے
تو پارٹی کی اہم محفل میں تجویز دی کہ جو پارٹی فیصلے فرار اختیار کرے اسے
رن طلاق ملے۔اس پر ہنسی چھوٹ گئی میں نے کہا باھئی ہوری گھروں تنگ نیں۔اس
قسم کی باتیں لکھنے کا ہر گز مطلب نہیں کہ پارٹی کی تضحیک کر رہا ہوں جدہ
میں سرور پیلیس میں بھی یہی کچھ ہوتا تھا سہیل ضیاء بٹ زندہ ہیں اﷲ لمبی
عمر دے ایک بار قاری شکیل نے میری میٹینگ نواز شریف صاحب سے رکھ دی۔میں
پیلیس گیا تو سہیل ضیاء ملے اور کہنے لگے ویکھو جی گل ائے ای جی انجینئر صا
ب بادشاواں کو جاؤ تو اوناں دے مزاج دی گل کرنی چائی دی اے۔گجر ویسے ہی
جلالی ہوتے ہیں اوپر سے چوہان اور خبریں کا رپورٹر۔وہ دور اخبارات کا دور
تھا خبریں کا نمائیندہ حلقے کا ایس ایچ او بڑے ٹور دار ہوتے تھے۔میں نے
جواب دیا حضور نہ تو یہ بادشاہ ہیں اور نہ ہی میں درباری۔مشرف ظالم شخص ہے
اس نے زیادتی کی ہے میں مظلوم کے ساتھ ہوں اس لئے میاں صاحب کو مل رہا ہوں
یہ بات میاں صاحب سن رہے تھے انہوں نے سہیل ضیاء کو بلا کر ہلکے انداز میں
ڈانٹ پلا دی۔بات در اصل یہ ہے کہ ہم پارٹیوں میں کام کرتے ہیں ہمیں مان
ہوتا ہے اپنی جد وجہد کا کوشش کا اور اسی مان کی ترنگ میں ہم سے چاپلوسی
نہیں ہوتی۔لوگ پیچھے سے آتے ہیں عجیب و غریب خوشامدانہ لہجہ ہوتا ہے۔پیچھے
چھوڑ جاتے ہیں چکوال الیکشن میں ایک مقامی لیڈر کا دورہ تھا وہاں مے نے ایک
لکھاری عظمی لکھنے والے کو اس لیڈر کی قمیض سے کوئی لگی چیز کو صاف کرتے
دیکھا۔آپ نے بھی دیکھا ہو گا لوگ ان لیڈروں کی خوش آمد میں کس قدر آگے نکل
جاتے ہیں ایک سابق جج جو ایم این اے بھی رہ چکے ہیں حمزہ شہباز شریف کی
پلیٹ میں چمچ اور کانٹا رکھ رہے تھے۔پچھلے دنوں نوشہری میں غلام سرور خان
جو ہمارے سینئر لیڈر ہیں یہ ان کی مہربانی ہے مجھے بڑا بھائی کہتے ہیں کہنے
لگے۔ایک تقریب میں گجرات کے نواب خاندان کا ایک فرد بی بی کے سامنے امرود
لائے۔انہوں نے پہلے تو امرود کو ٹیشو سے صاف کیا پھر اسے اس پلیٹ کو پالش
کیا یہ سارا منظر بی بی دیکھ رہی تھیں ۔اور کہا بی بی یہ مارود کاھئیے
محترم خوش ہوئیں اور کہا نواب صاحب آپ کو کیسے پتہ چلا کہ مجھے امرود پسند
ہیں۔تو نواب صاحب فرمانے لگے بی بی مجھے علم ہے لاڑکانہ میں آپ کے گھر کے
پاس امرودوں کے باغ ہیں میں جان گیا تھا کہ آپ کو مارود پسند ہیں۔پھر اس
امرود کی حالت پر تبصرے ہوئے۔بعد میں کسی نے پوچھا نواب صاحب یہ کیا حرکت
کی آپ نے نواب نے کہا حضور ہم نواب بنے کیسے؟
پارٹیوں میں بننے والے ان نوابوں کا ہم کیا مقابلہ کریں۔جو اپنے لیڈر کو
مشورے دیتے ہیں سچ بتاتے ہیں۔دھڑلے بات کر لیتے ہیں۔
میں اپنی پارٹی کی کیا پاکستان کی سب پارٹیوں کی بات کر رہا ہوں۔لوگ لیڈر
کو امام مانتے ہیں بلکہ امام بھی غلطی کرے تو ہم ٹوک دیتے ہیں ۔یہاں تو
الٹی چھلانگ لگے تو واہ واہ کے چرچے ہوتے ہیں کہ کیا جمناسٹک کا مظاہرہ کیا
ہے۔
تحریک انصاف کیا اور پاکستان کی دیگر پارٹیاں بھی اسی قسم کے رویوں کا
مظاہر کرتی نظر آتی ہیں۔سچ کبھی کسی کو اچھا نہیں لگتا۔ایک بار کوئی برملا
لوگوں کے سامنے سچ کہہ دے تو اس کی ساری زندگی خیر نہیں۔جی یہ ہے وہ بندہ
جس نے فلاں وقت فلاں میٹینگ میں یہ بات کہہ دی تھی۔
تحریک انصاف کا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ یہاں مفت کے مشورے دینے والے بھی
کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں اپنی میٹینگ ہو تواپنے لوگ بات کریں تو کوئی
بات نہیں کچھ لیترے لوگ باہر سے آ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنی سوچ کو لیڈر
کے کان میں پھونک کر چلے جاتے ہیں۔ٹھیک ہے جی مشورہ ضرور ہونا چاہئے مگر یہ
کیا کہ انسٹنٹ مشورہ کان میں کچھ پھونکا اور بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔پی
ٹی آئی کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں ہماری ان تیزیوں نے
ہمیں بہت سی جگہوں پر مروایا ہے۔ہم دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم کارپوریٹ کلچر
سے آئے ہوئے لوگ ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اب بھی پنجاب کے اپوزیشن لیڈر کہتے
ہیں کہ جی میں نے نگران وزیر اعلی کا نام دینے سے پہلے دو بار عمران خان کو
فون کیا۔حضور کیا ہم اتنے ہی پھسڈی تھے کہ اس اہم مسئلے پر پہلے کوئی دو
چار یٹینگز کرتے اور کوئی نام فائینل کرتے۔اس سے پارٹی کی جو سبکی ہوئی وہ
آپ کے سامنے ہے۔اب ٹکٹوں کا مسئلہ ہے یہ جو آخری پورا ہفتہ رات دن ایک کئے
گئے یہ تو اس طالب علم والی بات ہے جس کے ہاتھ میں ڈیٹ شیٹ ہو اور رات دن
ایک کر دے نہ سوئے نہ کھائے اور پرچے کی تیاری کرے اس نے ۳۳ فی صد تو لے
لینے ہیں مگر ۸۰ فی صد بھول جائے۔ٹکٹیں اناؤنس ہوئیں بنی گالہ لندن کا وہ
چوک بن گیا جس کا نام نہیں یاد آ رہا۔ہر بندہ دوڑ رہا ہے ۔میرا ٹکٹ اناؤنس
نہیں ہوا بیگم کہنے لگیں آپ کیوں نہیں گئے۔میں نے پہلے بھی کہا تھا مر جاؤں
گا بھیک نہیں مانگوں گا احتجاج کروں گا باوقار طریقے سے کروں گا۔رات ایک
افطاری تھی وہاں یہی باتیں زیر بحث آئیں کرنل اجمل کو ٹکٹ نہیں ملا سرور
خان کو دو مل گئے لوگ کہہ رہے تھے جی ہم نے مظارہ کیا ہے ہم بنی گالہ گئے
ہیں وہاں سے ہمیں امید دلائی گئی ہے۔ایک مہاشے تو کہنے لگے آزاد لڑیں۔ایک
اور فرمانے لگے پارٹی مذہب نہیں چھوڑ دیں۔میرا جواب صاف تھا کرنل صاحب اور
دوستو! ٹکٹ نہیں ملا اس کے لئے جد وجہد کریں آخری حد تک جائیں مگر اس لڑائی
کو ایک دائرے میں رکھیں۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم تما م وقت سر سٹ کے کام
کرتے ہیں اور عین الیکشن کے دنوں میں ہمارے اندر کا انقلابی جاگ اٹھتا
ہے۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ عمران خان کس مجبوری میں ہے ایک مظاہر کرتا ہے
سوشل میڈیا پر طوفان اٹھات ہے تو اس کا اعلان شدہ ٹکٹ منسوخ کر دیا جاتا ہے
اسی طرح پنڈی میں ٹکٹوں کی تقسیم ایک مزاق بن چکی ہے۔جازی خان جیسے فرد کو
رولا ڈالنے پر ٹکٹ ملا فیاض چہوہان کو ٹکٹ ملا اس پر پھڈے۔
اپنے اندر کے رولے ہوں تو کوئی بات نہیں شیخ رشید کا کمال دیکھئے اپنی قلم
دوات کی نب سے بلے کو زیر بار کر کے رکھ دیا ہے دو اپنی لے لیں اور باقی
نیچے وی منگ رہے ہیں۔وہ کمال کے شیخ ہیں وہ اپنے بندوں کو پارٹی میں بھیجتے
ہیں دو رنگا ڈلواتے ہیں اور اس کے بعد کہتے ہیں یہ ٹکٹ اس کو دے دیا
جائے۔چوہان دا نک وگدا اے کئی سالوں سے ٹاک شوز میں لڑائیاں کرتا ہے پارٹی
کے لئے روز و شب ایک کئے ہوئے ہیں نہیں جی مجھے یہ وارا نہیں کھاتا۔ایک اور
شخص جو اب ادھیڑ عمر ہو رہا ہے دنیا جانتی ہے کہ یہ شیخ رشید کا انویسٹر
ہے۔اس کے لئے بھی ٹکٹ مانگے جا رہے ہیں ۔یہ پیٹی آئی پنڈی نہ ہوئی شیخاں دی
ہٹی ہو گئی ہے-
ایک میری ایک میرے بھراء دی تئے دوجی تیجی وی دیو۔ایک بار ڈاکٹر یونس بٹ نے
چودھری جعفر اقبال،عشرت اشرف،زیب جعفر کے بعد اپنے داماد کی ٹکٹ پر خاکہ
بنایا تھا وہ اب یہاں ہے ہری پور میں کیا غضب ہو رہا ہے۔جناب یوسف ایوب تا
حیات نا اہل ہیں وہ ای ٹکٹ عمر ایوب کا دوسرا اکبر ایوب کا تیسرا ارشد ایوب
کا مانگ رہے ہیں۔وہاں بات ہوئی کہ ایکٹکٹ عابد مختار گجر کو دے دیں جو حلقے
کی سب سے بڑی برادری ہے تو صاف کہہ دیا نہیں جی۔یہ بھی کہا گیا کہ چلیں آپ
کو لیڈیز سیٹ دے دیتے ہیں ۔جب لیڈی کا نام چیک کیا گیا تو فرسٹ پرائرٹی پر
یوسف خان کی بیگم کا نام تھا۔یہ لوگ بدلیں گے
مر گئے ہم اس تبدیلی کے لئے اور تو اور عمران خان بھی رو رہے ہیں ان کے
ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ہے۔یہ جو ایک لہر آئی جس کو وکٹیں اڑانے کا نام دیا
اس لہر میں ہم اتنے جھلے ہو گئے ہیں کہ ہمیں ایک تارا مسیح بھی مل جائے تو
اس کے گلے میں سافا ڈال کر کہیں گے کہ ہم نے جے سالک کی وکٹ اڑا دی۔
پی ٹی آئی پنڈی میں غیر محسوس طریقے سے ایک گروپ بن گیا ہے جسے آپ شیخ رشید
گروپ کہہ سکتے ہیں یعنی پی ٹی آئی گلہ لئی کے بعد پی ٹی آئی ش ر گروپ ۔شیخ
صاحب سے کئی سالوں کا واسطہ ہے ہم بھی بساط بھر ان کی میزبانی کرتے
رہے۔لیکن جن کا انتحاب وہ کر چکے ہیں وہ ان کے انویسٹر ہیں۔میرا ٹکٹ شیخ
صاحب نہیں ہونے دے رہے میں نے ایک دوسرے حلقے میں کریا ہے وہاں بحریہ کے
ٹائیکون کے فرد خاص جو قتل کی ایف آئی آروں میں نامزد ہیں وہ آڑے آ رہے
ہیں۔ماڑی جئی جندھڑی دکھ ڈھاڈے بھارے نیں۔
گل سادہ سی ہے۔مولانامودودی سے ۷۰ کالیکشن ہارنے کے بعد چند طلباء ملے جن
میں شائد ضیاء شاہد بھی تھے لوگوں نے کہا مولانا یہ کیا نتیجہ ہے؟زیر لب
مسکرائے اور کہا میرا اﷲ مجھ سے یہ نہیں پوچھے گاکے کتنے ایم این اے جتوائے
وہ میری کوشش کا پوچھے گا۔ لگتا ہے بات ایک آئیت نکل گئی ہے اب معاملہ
اہدنالصراط المستقیم آن پہنچا ہے۔کوشش جاری رکھوں گا ٹکٹ ملتا ہے تو ٹھیک
نہیں ملتا تو فقیر کے پاس بڑے گر ہیں۔قلم ہے گفتار ہے جو کینڈیٹ اچھا لگا
اس کی انتحابی مہم میں حصہ لوں گا۔ہری پور میں غاصبوں سے ٹکراؤں گا ٹکٹ ملے
نہ ملے رات سے نہ ہاروں گا اور عمران خان کی انتحابی مہم میں بھرپور کردار
ادا کروں گا۔ توں ڈیوا بال کے رکھ چاء خدا جانے ہوا جانے
|