برہمنوں نے کھشتری ،ویش اورشودر کو اپنا غلام بنا لیااور
ان پر من مانی کے فیصلے مسلط کیے۔ریاست ،سیاست اورمذہب پر قابض ہوئے ۔
کمزوروں پر ظلم کا بازار گرما کیے رکھا اور طاقتوروں کے سامنے جھکنے میں
عافیت جانی ۔اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے منافقت کو اپنا ہتھیار
بنایا ۔وفادار ی کا لباس پہن کر غداری کو اپنا شعار ٹھہرایا ۔وحدت کے
الہامی فلسفہ کو پش پست ڈال کر ذات پات کے نظریہ کو فروغ دیا ۔ الہامی
مذاہب کے وجود کو تسلیم کرنے کی بجائے انکے خلاف نفرت اورقتل وغارت کے کلچر
کو پھیلایا یہی وجہ ہے کہ برہمنوں کے اکھنڈ بھارت میں مسلمان ،سکھ ،عیسائی
،بدھ مت سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں ۔کبھی کلیساء پر حملہ ہوتا ہے تو
کبھی مسجد پر کبھی گردوارے کے مکین نفرت کی بھینٹ چڑھتے ہیں تو کبھی مسجد
کے نمازی ۔کہیں گائے ماتا کے تحفظ میں مسلمانوں کی موت کی نیند سلایا جاتا
ہے تو کبھی سکھ برادری کو ہندومذہب کی تائید نہ کرنے پر ظلم کا نشانہ بنایا
جاتا ہے ۔ نریندر مودی بھارت کو دنیا کا ٹائیگر بنانا چاہتا ہے اورپاکستان
کودنیا کے نقشے سے مٹانے کی منصوبہ سازی کرتاہے موصوف سے پہلے جناب سابق
وزیراعظم واجپائی صاحب مینارپاکستان پر بھارتی پرچم لہرانے کا ادھورا خواب
دیکھتے رہے ۔
معلوم نہیں برہمن کیوں بھول جاتے ہیں کہ لال قلعے پر سرسبز ہلالی پرچم لہرا
کر شاہینوں نے واضح پیغام دیا تھا کہ اپنی اوقات میں رہیے گا اگربلی اوقات
سے باہر آئی تو شاہین دبوچنے کے ساتھ نوچ کر کنگا میں بہادیں گے ،سرجیکل
سٹرائیک کے ادھورے خواب چھوڑئیے گھوشالے(ٹائلٹ ) تعمیر کی جئے ۔ ہمسایا
ممالک کے امور میں مداخلت کی بجائے اپنے گھرمیں موجود انتہاپسندی کے ناسور
کو قابومیں لانے کی کوشش کی جئے ۔کہیں ایسا نہ ہو یہ ناسور اکھنڈ بھارت کو
نگل جائے ۔اس آگ کو پھیلانے کی بجائے بجھانے کی ضرورت ہے ۔ مسٹر مودی صاحب
جس انداز سے کشمیری حریت پسندوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں اس کا انجام بہتر نہیں
ہوگا ،تیروتفنگ ،بندوق اورٹینکوں سے آزادی کی تحریکوں کو کبھی دبایا نہیں
جاسکا ہے ۔اگر آزادی کی تحریکیں طاقت کے بل بوتے پر دبائی جاسکتیں تو
امریکہ سے لے کر چین اورچین سے بھارت تک سبھی برطانیہ کے غلام ہوتے ۔ اگر
طاقت اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی تو سویت یونین کبھی تباہ وبرباد نہ
ہوتا ۔اگر سائنٹیفک ٹیکنالوجی اورجدید ہتھیار قوموں پر قبضہ جمانے کا ذریعہ
ہوتے تو امریکہ عراق کے بعد افغانستان میں بدترین شکست کا یوں مرثیہ نہ پڑھ
رہا ہوتا بلکہ فتح کا جشن منارہا ہوتا ۔اگر افرادی قوت قوموں پر اقتدار
حاصل کرنے ذریعہ ہوتی تومشرکین مکہ کو کبھی بھی غزوہ بدر میں شکست کا سامنا
نہ کرناپڑتا ۔ اگر جاہ وجلال اوربھاری افواج قوموں پر قبضہ جمانے کا ذریعہ
ہوتی تو قیصر وکسریٰ کی بین الاقوامی قوت کبھی پاش پا ش نہ ہوتیں ۔
ولیم الڈوس نے سچ کہا تھا کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انسان تاریخ
سے سبق نہیں سیکھتا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ سے جو
لوگ برضا و رغبت سبق نہیں سیکھتے تاریخ انہیں بزور قوت سبق سکھا دیتی ہے۔
اور ایسا کرنے کے لیے تاریخ بس اپنے آپ کو دوہرا دیتی ہے۔ انسان اپنی ناقص
بصیرت سے ماضی قریب کے محدود واقعات پر غائر نگاہ ڈالتا ہے اور اس کا
انطباق ساری انسانی تاریخ پر کر دیتا ہے۔ اس کی جسارت اس جرمِ صغیربس نہیں
کرتی بلکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہو جاتا ہے کہ اب قیامت تک حالات میں
کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی حالانکہ خود انسانی تاریخ اس مفروضہ کے خلاف
شہادتوں سے اٹی پڑی ہے بقول اقبال :
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
میں بھارت کے جہاندیدہ دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں نفرت کی سیاست کو چھوڑیئے
۔ پاکستان اسی وقت تعمیر ہوچکا تھا جب برصغیرمیں پہلی مرتبہ کلمہ طیبہ کی
صدا بلند ہوئی تھی اوراب پاکستان دنیا کا مضبوط اورمحفوظ ترین ملک بن چکا
ہے ۔ آج پاکستانی بیٹے اوربیٹیاں دنیا کے تمام ممالک میں اپنے ہنر اورفن کے
کمالات سے سرسبز ہلالی پرچم کو لہرارہے ہیں ،ہرمیدان میں میری دھرتی کے
بیٹے بیٹیوں نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے ۔ترقی اور خوشحالی کا ہر زینہ
پاکستان سے نکلتا ہے ۔چائنااکنامک کوریڈور ،ون بیلٹ ون روڑ اس کی بہترین
امثال ہیں ۔
روزانہ جنگ کی دھمکیاں دینا اور سرجیکل سٹرائیک کے راگ الاپنا تمہیں زیب
نہیں دیتا ۔سیانے ٹھیک کہتے ہیں جس چیز کی اہلیت نہ ہو اسے روز جتانا بے
وقوفوں کی نشانی ہے میرے نانا جی کہا کرتے تھے کہ بنگالی اور ہندو دنیا کی
بزدل ترین قومیں ہیں اوران کی تاریخ شکست سے عبارت ہے اگے چل کر اس کی
تفصیل بیان کروں گا ۔پنڈت چانکیا کے عیار پیروکاروں کی مکاری کو سب سے پہلے
مسلمانوں نے پھانپا اور دس سوسال تک ان پر حکمرانی کی اوراِنہوں نے غلامی
کی اورمکاری کی بہترین امثال قائم کیں ۔بعدازاں انگریزوں کی برصغیر میں آمد
اور مکار غلاموں کی منافقت سے مغل سلطنت کا خاتمہ اور انگریزوں کے
دورِاقتدار کا آغاز ہوا ۔ہندو اپنے شاطرانہ طرزعمل کی وجہ سے انگریزوں کے
قریب سے قریب ترہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اورحکومتی سرگرمیوں میں حصہ لیا
مسلمانوں کو تعلیم اوراقتدار سے دور رکھنے کی سازشیں رچائی جناب سرسید احمد
خاں نے برہمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا اور علامہ محمد اقبال ؒ نے
مسلمانوں کو درست سمت کی طر ف گامزن کیا قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت
میں مسلمانوں نے آزاد خود مختار ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر کیا ۔تب سے اب
تک برہمن ارض پاک کی آزادی کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں ۔ہمارے بعض حکمران
جو دوستی کی پتنگ کو دونوں اطراف مل کر اڑانے کی تمنا کرتے ہیں ان کا خواب
برہمن کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے ۔لہذا ان کو چاہیے کے خود کو
بھارتی رنگ میں رنگنے سے بہتر ہے کہ وہ اسلام اور پاکستانی رنگ میں رنگ
جائیں ۔سیکولرازم کے بھوت پر مٹی ڈالیے جناب من سے مسلمان ہوجائیے ۔بھارتی
حکمران بھارت کو سیکولر سٹیٹ قرار دیتے ہیں مگرعملاً اکھنڈ بھارت کی کوششوں
میں مصروف ہیں جناب مہاتما گاندھی جی کہتے تھے اورواجپائی اورمودی بھی اسی
کے قائل ہیں’’ میں اپنے آپ کو سناتنی ہندو کہتا ہوں ،میں ویدوں ،اپ نشدوں
،پرانوں اورہندو مت کی تمام مذہبی کتابوں کو مانتا ہوں اوراوتاروں کا قائل
ہوں تناسخ میرا عقیدہ ہے گؤرکھشا (گائے کی پوجا)کو اپنا دھرم سمجھتا ہوں
میں بت پرستی کا منکر نہیں میرے جسم کا رواں رواں ہندو ہے‘‘ ۔۔۔۔جاری ہے |