حضرت خواجہ بندہ نوازگیسو درازؒ فلسفۂ حیات کے آئینے میں
(16؍ذیقعدہ آپؒ کے 614ویں عرس کے موقع پرخصوصی تحریر)
تخلیق کائنات کے ساتھ ہی جب سے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ابن آدم کوشرف وعزت
کامقام بخشاتواُسے پردۂ عدم سے عرصۂ شہودمیں لاکرروئے زمین پرآبادکیا۔ہرکرن
وہرعہداورہردَورمیں دینی اموروَرُشدوہِدایت اوردنیوی ضروریات،فلاح وبہودکے
فیضان کے لئے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام اوراولیاء کرام کی مقدس ذات
کومبعوث اورمقررفرماتارہا ۔جن کی ذات قدسیہ ہرفردوبشرکے لئے سنگ میل اوران
کی حیات طیبہ تمام بنی نوع انسان کے لئے مشعل ِراہ ہوئی۔اسی کے پیش
نظرمجددالف ثانی حضرت سیدی شیخ احمدسرہندی قدس سرہٗ العزیزاپنے مکتوبات
دفتردوم مکتوب نمبر۵۲میں رقمطرازہیں کہ:’’وہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہم نشیں
ہوتے ہیں جس نے انہیں پہچانا،اُس نے اﷲ تعالیٰ کوپہچان لیا‘‘۔اولیاء کرا م
نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے مشن کوفروغ دینے ،ان کی تعلیمات
کولوگوں تک پہنچانے اوربھٹکے ہوئے انسانوں کوصراط مستقیم پرگامزن کرنے میں
بڑااہم کرداراداکیاہے۔شرک وکفر،بدعات وخرافات،بُرے رسوم،بے حیائی وبے پردگی
،گمراہی وبدمذہبی،دین حق سے دوری،سنت رسول ؐ کے خلاف ورزی اورمعاشرہ میں
پھیلی گندگی کودورکرکے لوگوں کے دل کی دنیاکوبدلنااورخدائے وحدہٗ لاشریک
اوراُس کے محبوب و مقدس رسول ﷺکی ذات بابرکات سے سچی الفت ومحبت وصحیح
معرفت کرانااولیاء کرام کاکمال ہے۔ان کی زندگی کامقصدالحب فی اللّٰہ والبغض
فی اللّٰہ ہے ۔اسی سلسلہ کی ایک عظیم کڑی شیخ الاسلام ،آقائے جنوب حضرت
سیدنا قطب الاقطاب خواجہ سیدمحمد بندہ نواز گیسودراز بلندپروازمخدوم
ابوالفتح صدرالدین محمدالحسینی قدس سرہٗ العزیز(گلبرگہ شریف) کی ذات
بابرکات ہے۔آپ نویں صدی ہجری کے ایک زبردست عارف باﷲ ،علوم ظاہری وباطنی کے
جیدعالم اوراہلسنت والجماعت کے عظیم پیشواہیں۔آپ کی حیات طیبہ آٹھویں
اورنویں صدی ہجری کاایک ایساروشن باب ہے جس سے دینی،علمی،ثقافتی،سیاسی
اورلسانی ہرمیدان کی راہ متعین ہے اورگم گشتہ راہوں کے لئے ایک سنگ میل
ہے۔بلاریب سرکاربندہ نوازقدس سرہٗ ان محبوب ومقدس ترین ہستیوں میں سے ہیں
جن کوخداوندقدوس جل جلالہ وعم نوالہ نے خوب خوب انعامات واکرامات سے
سرفرازفرمایاہے۔انہیں درجۂ وِلایت ومنصب کرامت عطافرمایااورگم گشتہ راہ
لوگوں کے لئے مرشدبرحق وہادی بنایا۔
آپ کااسم گرام سیدمحمد،کنیت ابوالفتح،القاب:’’صدرالدین،الولی
الاکبر،الصادق‘‘خلیفۂ راستیں شیخ نصیرالدین چراغ دہلیؒ،جامع میان سیادت
وعلم ولایت،شان رفیع،رتبۂ منیع،کلام عالی کے حامل،امین سرِّ ولایت،امان
روئے زمین،امام دین ہدیٰ،پیشوائے اہل زمن حضرت خواجہ بندہ نوازگیسودراز قدس
سرہٗ العزیز 4 ؍رجب المرجب 721 ھ سرزمین دہلی میں بزم ہستی میں رونق
افروز ہوئے۔آپ کے والدماجدکانام سیدیوسف حسینی عرف سیدراجہ تھا،والدۂ
محترمہ بھی سیدہ تھیں،اوربی بی رانی نام تھا،والدماجدسلطان المشائخ حضرت
محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین محمداولیاء بدایونی ؒ کے مریدتھے،اوران کے
خلیفۂ خاص حضرت خواجہ نصیرالدین محموداودھی چراغ دہلی ؒکے بھی فیض یافتہ
تھے،آپ کا شمارشرفائے دہلی میں ہوتاتھا،صوفیانہ روش میں ممتاز تھے،سلطان
محمدتغلق کے حکم سے دہلی ترک کرکے دولت آبادمیں آکرقیام کیا،اورچندسال بعد
ہی وفات پائی،(5؍شوال المکرم 731 ھ)خلدآبادمیں غارہائے ایلورہ کے قریب آپ
کامزارمبارک ہے۔والدمکرم کے انتقال کے بعدحضرت مخدوم بندہ نوازؒ کی عمرشریف
دس سال تین ماہ ایک روز کی تھی۔دولت آبادکے قیام کے زمانہ میں آپ نے اپنے
والدماجداوران کے بعدناناجان(جوحضرت سلطان المشائخ ،محبوب الٰہی ہی کے
مریدتھے)اوربعض دوسرے اساتذہ سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔قرآن کریم حفظ
کیا،اوراس وقت کے نصاب کے مطابق صرف ونحو،فقہ اوراصول فقہ کی کتابیں
پڑھیں۔بچپن ہی سے آپؒ اپنے والدمکرم اورناناجان کی زبانی حضرت نظام الدین
اولیاءؒ اورحضرت نصیرالدین چراغ دہلویؒ کے فضائل وکمالات کاتذکرہ سُناکرتے
تھے۔حضرت چراغ دہلویؒ سے آپ ؒ کوغائبانہ عشق پیداہوگیا۔گوعشق نے آپ کوقرب
روحانی توعطاکردیا،لیکن بُعدجسمانی کے رفع کرنے کی کوئی راہ نظرنہ آئی۔قلبی
کشش نے بہت جلدیہ مشکل بھی دورکردی،آپ کی والدہ ٔ محترمہ کواپنے بھائی ملک
الامراء سیدابراہیم مستوفی سے(جوبادشاہ کی جانب سے صوبۂ دولت آباد کے صوبہ
دار(گورنر)تھے)رنجش پیداہوگئی،اورآپ اپنے دونوں لڑکوں یعنی حضرت خواجہ بندہ
نوازؒاوران کے بڑے بھائی سیدحسین عرف سیدچندن حسینؒ کولے کردہلی روانہ
ہوگئیں،اور4؍رجب المرجب 736 ھ کودہلی پہونچ گئیں۔حضرت خواجہ بندہ نوازؒکی
عمرمبارک اس وقت پندرہ سال کی تھی،جمعہ کے دن آپ سلطان قطب الدین کی جامع
مسجدمیں نمازجمعہ کے لئے اپنے بھائی کے ساتھ گئے،حضرت چراغ دہلویؒ بھی وہاں
موجودتھے،نظرپڑتے ہی دل چیخ اٹھاکہ۔
تومحبوب جانی وجان جہانی
فدائے توصدعمروصدزندگانی
جمعہ کی نمازسے فارغ ہوکراپنے بھائی کوساتھ لے کرحضرت چراغ دہلی کی بابرکت
خدمت میں حاضرہوئے اوردونوں بھائی16؍رجب المرجب 736 ھ بیعت سے مشرف
ہوئے۔آپ کے بڑے برادرمکرم تودنیاکے کاروبارمیں مصروف ہوگئے لیکن حضرت خواجہ
بندہ نوازؒ کی فطرت ہی کچھ اورتھی۔
مردمعنی ازجہانِ دیگراست
گوہرلعلش زکانِ دیگراست
حضرت شیخ کامل ؒ کی خدمت میں حاضرہوکرآپ نے سلوک کاآغازکیا،حکم ہوکہ اشراق
اورچاشت کی نمازوں کی پابندی کی جائے،اوررجب المرجب وشعبان المعظم کے مہینے
کے روزے پورے رکھے جائیں،سلسلۂ درس علوم ظاہری جاری رہے،چنانچہ پیرومرشدکے
حکم کی تعمیل میں مولاناشرف الدین کتیلی،مولاناتاج الدین بہادراورقاضی رکن
الدین اشریحی،اوربعض دوسرے اساتذہ ٔ کرام کے سامنے زانوئے ادب طے
کیا،اثنائے تعلیم دوایک بارغلبۂ حال سے مضطرب ہوکرحضرت شیخ کامل ؒ سے عرض
کیاکہ بقدرضرورت توپڑھ ہی لیاہے،اب جی چاہتاہے کہ یکسوہوکرجان ودل جانبِ
دلدارکردوں،لیکن تکمیل درس کی تاکیدکی
گئی،اورارشادہواکہ’’ماراباتوکارہااست‘‘اورکام یہی تھاکہ حضرت خواجہ بندہ
نوازؒکواشتہاردین کاسبب بھی بنائیں اوریہ ہوکررہا۔
آپ کے فیضِ علم سے دنیاودین کے کام آراستہ ہوئے !کان امراﷲ
قدراًمقدوراً،انیس (19)سال کی عمرمبارک میں حضرت خواجہ بندہ نوازؒعلوم کی
تحصیل سے فارغ ہوگئے،اورتمام ترریاضت ومجاہدات واشغال باطنہ میں مصروف
ومنہمک ہوگئے!اس راہ میں انہوں نے کونین کوپس پشت ڈال کرجومجاہدے کئے وہ بس
انہیں کاحق تھا۔
کونین راچوں نعلین انداختیم ورفتیم
دیوانگانِ شاہیم رندبرہنہ پائیم
جب حضرت شیخ کاملؒ سے اپنی کیفیات باطنہ کاذکرکیاتوفرمایا:’’بعدازہفتادسال
کودکے مراازسرشورانیدہ است وواقعات سابق مرایاددہانیدہ‘‘۔جذب وسکرکی حالت
میں بستی چھوڑکرجنگل کی راہ لی اورکئی دن صحرائے نوردی میں گزاردیئے،سچ
تویہ ہے کہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒپیدائشی عاشق تھے،آپ نے غم عشق شیرمادرکے
ساتھ نوش جان فرمایاتھا، حضرت خواجہ بندہ نوازکی سلوک میں حیرت ناکی
ترقی(جونتیجہ تھی ان سخت ریاضتوں،اورخدادادصلاحیتوں کا)دیکھ کرحضرت شیخ
چراغ دہلویؒ آپ کی بڑی قدرکرتے تھے،چنانچہ ایک مرتبہ اپنے چندخاص مریدوں
کولے کرخطیرہ شیرخاں تشریف لے گئے جہاں حضرت خواجہ بندہ نوازؒ مقیم تھے
حاضرین کی موجودگی میں چندروپے حضرت خواجہ بندہ نوازؒکے سامنے رکھ کرزبانِ
مبارک سے فرمایا’’این مااست برائے سیدمحمد‘‘۔
15؍رمضان المبارک 757 ھ حضرت شیخ چراغ دہلوی ؒکامزاج ناساز ہوا،مرض میں
شدت پیداہوئی،وہاں موجودین حضرات میں یاران طریقت میں سے کسی نے عرض کرنے
کی جرأت کی کہ حق تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت کے بعض تربیت یافتہ مقامات
عالیہ پرفائز ہیں،اورصاحب کشف وتجلی بھی ہیں مناسب ہے کہ ان میں سے کسی
کوجانشینی کے لئے نامزدفرمادیاجائے،چنانچہ حضرت شیخ کے حکم سے مولانازین
الدین نے منتخب اورسربرآوردہ متوسلین کے ناموں کی یکے بادیگرے دو فہرست
بارگاہ عالی میں پیش کی مگران دوفہرستوں میں حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کانام
شامل نہ تھادوسری فہرست کودیکھ کرفرمایا’’نام سیدنہ نبشتید‘‘یہ عتاب
آمیزجملہ سن کرحاضرین کانپ اُٹھے اورفوراً حضرت خواجہ ؒ کانام شامل کرکے
تیسری مرتبہ فہرست پیش کی توفوراً شیخ کاملؒ نے اپنے دست مبارک سے ہمارے
خواجہ بندہ نوازؒکے اسم گرامی پرحکم صادرفرمایا۔(تفصیل کے لئے دیکھئے
سیرمحمدی ،ص20،وترجمہ تاریخ حبیبی، ص16)
18؍رمضان المبارک 757 ھ میں حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلویؒنے رحلت
فرمائی،حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نے غسل دیا،اوراس طرح اپنے شیخ کی آخری خدمت
بھی انجام دی،زیارت سوم کے بعدآپ سجادۂ ولایت پرجلوہ افروزہوئے،اورحضرت
چراغ دہلوی ؒکے خلیفۂ راستین کی حیثیت سے خلق خداکی رشد وہدایت کے عظیم
الشان کام کاآغازفرمایا(سیرمحمدی)
دہلی قلب ہندوستان میں چوالیس(44) سال تک حضرت خواجہ ؒ نے رشدوہدایت کی شمع
روشن رکھی،اورسرورکائنات ﷺ کے اتباع میں مشائخ چشت کے طریقۂ قدیمہ پرخدمت
خلق کافریضہ شاندارطریقہ پرانجام دیا،پھریہ شمع دکن میں اپنے پورے آ ب وتاب
کے ساتھ روشن ہوئی،سجادۂ ارشادپرمتمکن ہونے کے چارسال بعدآپ نے اپنی والدۂ
ماجدہ کے اصرارپرچالیس کی عمرمیں سیداحمدبن عارف باﷲ جمال الدین مغربی رحمۃ
اﷲ علیہماکی صاحبزادی رضاخاتون سے نکاح کیا۔ 800 ھ میں امیرتیمورنے
ہندوستان کارخ کیا، 801 ھمیں اٹک پہونچااوردہلی کی طرف بڑھا،ہمارے خواجہؒ
کی چشم بصیرت نے دہلی کی تباہی کامنظردیکھ لیا،اوردہلی سے ہجرت واجب
سمجھی،اورشہرکے سادات وعلماء وعامۂ خلق کوآنے والی بلا سے متنبہ
کیا،اوردہلی سے چلے جانے کامشورہ دیا،اورخود7؍ربیع الثانی 801 ھ کواپنے
متعلقین اورمتوسلین کے ایک چھوٹے سے قافلہ کے ساتھ دکن کاقصدفرمایا۔
یہ سفرایک سال کی مدت میں طے ہوا،اوراس کی تفصیل مولانامحمدعلی سامانی کی
کتاب’’سیرمحمدی‘‘میں دیکھی جاسکتی ہے،جوحضرت خواجہ بندہ نواز ؒکے مریدخاص
تھے،آپ کے ہمراہ دہلی سے نکلے ،تمام سفرہمراہ رہے اورگلبرگہ آئے،حضرت خواجہ
بندہ نواز ؒدولت آبادہوتے ہوئے گلبرگہ شریف(کرناٹک) 803ھ میں تشریف
لائے،یہاں تشریف لانے کے چندسال بعدآپ قلعہ کے قریب فروکش رہے،اوراس کے
بعداس جگہ سکونت اختیارفرمائی،جہان اب آپ ؒ کامزارمبارک ہے۔
جب آپ کی عمرایک سوپانچ (105)سال چارماہ بارہ روزکی ہوئی توبتاریخ 16؍ذی
قعدہ 825 ھ روز دوشنبہ اشراق وچاشت کے درمیان آپؒ کی مقدس روح بارگاہ قدس
میں پروازکرگئی،(اِناللّٰہ واِناالیہ راجعون)مولانا بہاء الدین نے غسل
دیااوراسی دن تدفین عمل میں آئی،’’مخدوم دین ودنیا 825ھ‘‘مادۂ تاریخ رحلت
ہے،اورمادۂ تاریخ تعداد عمر’’عادل105ھ‘‘ہے۔سلطان احمدشاہ بہمنی کوحضرت
خواجہ ؒکی ذات سے بے پناہ عقیدت تھی،مزارمبارک پرنہایت عالی شان
گنبدتعمیرکروایا۔حضرت خواجہ بندہ نوازؒکے دوصاحبزادے ، اورتین صاحبزادیاں
ہوئیں (۱)سیدحسن المعروف بہ سیدمحمداکبرحسینی،(۲)سیدیوسف المعروف بہ
سیدمحمداصغرحسینی، (۳)بی بی فاطمہ،(۴)بی بی بتول،(۵)بی بی ام الدین ۔(خواجۂ
بندہ نوازکاتصوف اورسلوک،ص118 تا124،مطبوعہ ندوۃ المصنفین جامع مسجددہلی)
اورآج آپ کامبارک عرس16؍ذی قعدہ کوہرسال بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ
منایاجاتاہے،عاشقان حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودرازہزاروں کی تعدادمیں
بارگاہ عالیہ میں حاضری دیتے ہیں اوراپنی جھولیاں بھرکرواپس ہوتے ہیں۔
آخرمیں مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گوہوں کہ آپؒ کافیضان ہم
تمام مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری فرمااوراِن نفوس قدسیہ کی سچی الفت و
محبت عطافرمااوراِن کے صدقے وطفیل ہم سب کاایمان پرخاتمہ نصیب عطافرما۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وسلم۔ |