مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ۳۱ جولائی ۱۸۹۳ء کو پیدا
ہوئیں۔ بچپن میں ہی ماں باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں، بڑے بھائی قائد اعظم
محمد علی جناح نے آپ کوابتدائی تعلیم کے لیے ہائی اسکول کھنڈالہ میں داخل
کرادیا۔آپ نے ۱۹۱۰ء میں میٹرک اور ۱۹۱۳ء میں سینئر کیمرج کا امتحان
پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے پاس کیا۔۱۹۲۲ء میں ڈینٹیسٹ کی تعلیم مکمل کرکے
اگلے ہی سال ۱۹۲۳ء میں بمبئی میں ڈینٹل کلینک کھول کر پریکٹس شروع کردی۔ اس
کے ساتھ ہی گھریلو اور سیاسی زندگی میں اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح
کا ساتھ دینا شروع کردیا ۔مادرِ ملت زیادہ تر وقت اپنے بھائی کے ساتھ ہی
رہا کرتی تھیں۔ دونوں بہن بھائیوں کی آپس میں غایت درجہ محبت تھی۔ دونوں کے
درمیان جب کبھی معمولی سی چپقلش ہوجایا کرتی تو جلد ہی دونوں بھول جاتے ۔
ایک مرتبہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کے کمرے میں بیٹھی تھیں تو انہوں نے ہوا
کے لیے کھڑکی کھول لی۔ اس پر قائد اعظم نے کہا : فاطمہ میرے کمرے کی کھڑکی
کھولنے سے قبل تمہیں مجھ سے اجازت لینی چاہیے تھی۔ فاطمہ جناح اس اعتراض پر
ناراض ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔لیکن جب کھانے کے وقت کھانے کی میز پر
بہن بھائی جمع ہوئے تو دونوں پرانی بات بھول گئے کہ وہ آپس میں ناراض ہوئے
تھے۔ اگر فاطمہ جناح کبھی واقعی ناراض ہوجاتیں تو قائد اعظم خود ان کے کمرے
میں چلے جاتے اور انہیں ’’فاطمی‘‘ کہہ کر پکارتے تو یہ پیارا نام سنتے ہی
فاطمہ کھلکھلا کر ہنس پڑتیں اور سارا غصہ جاتا رہتا۔ گھریلو اور سیاسی
معاملات میں دونوں کی رفاقت کا سلسلہ تقریباً اٹھارہ سال رہا۔ جب ۱۹۱۸ء میں
قائد اعظم نے ایک لڑکی رتن بائی کو اسلام میں داخل کرکے اس سے شادی کی تو
اس شادی کے نتیجے میں بھائی بہن کے درمیان عارضی طور پر رفاقت ختم ہوگئی
تھی۔قائد اعظم نے اپنی اہلیہ کو اسلام قبول کروانے کے بعد ان کا نام مریم
جناح رکھا تھا۔ قائدِ اعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ رہ سکے۔ گیارہ
سال بعد ہی ۲۰ فروری ۱۹۲۹ء کو مریم جناح کا انتقال ہوگیا۔ اہلیہ کی موت نے
قائد اعظم پر گہرا اثر ڈالا۔ اس وقت انہیں ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ بھائی
کی اس حالت کو دیکھ کر فاطمہ جناح بہت بے چین ہوگئیں۔ انہیں اپنے بھائی کا
گھر اجڑنے کی فکر لاحق ہوئی چنانچہ انہوں نے اپنی تمام دیگر مصروفیات ترک
کے بھائی کا گھر سنبھال لیا۔یہ موقع تھا کہ قدرت نے بھائی اور بہن دونوں کو
دوبارہ جمع کردیا۔ فاطمہ جناح نے قائدِ اعظم کے خانگی امور خود سنبھال
کربھائی کو موقع دیا کہ سیاسی میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھائیں۔
فاطمہ جناح قائد اعظم کی صحت کا بھی بہت خیال رکھتیں اور ان کا نظام
الاوقات خود مرتب کرتیں۔محترمہ فاطمہ جناح نے جہاں سیاسی میدان میں قائد
اعظم کا خلوصِ دل اور خلوصِ نیت کے ساتھ بھر پور ساتھ دیا وہاں ایک شفیق و
دانا بہن بن کر ان کی نجی زندگی کو بھی خوشگوار بنائے رکھا۔
فاطمہ جناح خود بھی سیاست سے بے حد دلچسپی رکھتی تھیں ۔ ان کی سیاسی سوچ
اور مدبرانہ ذہن کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم نے انہیں اپنا سیاسی مشیر بنالیا
تھا۔ فاطمہ جناح ہی قائد اعظم کی پرائیوٹ سیکریٹری، سیاسی مشیر اور معاون
تھی۔ قائد اعظم فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنا ہر اہم بیان جاری کرنے سے پہلے
’’فل کونسل ‘‘ یعنی اپنی بہن فاطمہ کو ضرور دکھاتا ہوں۔ وہ میری اچھی مشیر
بھی ہیں اور دوست بھی۔ ( بحوالہ مادر ملت: ص۳۸)فاطمہ جناح عالم اسلام کی وہ
خوش نصیب خاتون تھیں جنہیں عظیم بھائی کا چوبیس گھنٹے ساتھ نصیب ہوا۔ اس
حوالے سے مشہور ادیب ابراہیم جلیس نے محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی جدوجہد کو
سرایتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
قائد اعظم کی زندگی محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی تھی۔ اور فاطمہ جناح کی
زندگی میں قائد اعظم کی زندگی۔ عمروں کے فرق اور فاصلے کے باوجود فاطمہ
جناح کی زندگی حضرت قائد اعظم کی زندگی کے ساتھ اس قدر متوازی چلتی ہے کہ
قائد اعظم کی زندگی ایک شخصیت کی نہیں دو شخصیتوں کی سوانح ہے‘‘۔ قیام
پاکستان میں انہوں نے قائد اعظم کی جس خلوص و دیانت اور تندہی سے معاونت کی
، اس کا اعتراف امریکہ اور برطانیہ کے اخبار نویسوں نے بھی کیا۔ انہوں نے
لکھا کہ پاکستان ایک بھائی اور بہن کی کوششوں کا معجزہ ہے۔ایک غیر ملکی
خاتون اخبار نویس مس مارنی نے محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات کرنے کے بعد
انہیں ان شاندار الفاظ سے یاد کیا تھا: ’’ کراچی میں اینگل روڈ پر ایک
عالیشان کوٹھی ہے جس کا نام فلیگ اسٹاف ہاؤس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان
کی عظیم شخصیت رہائش پذیر رہی ہے۔ جسے ساری دنیا مس فاطمہ جناح کے نام سے
جانتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس جگہ کو جس پر یہ کوٹھی تعمیر کی گئی ہے
بڑی خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ پاکستانی سیاست کا دھارا اسی جگہ سے پھوٹاتھا
جس نے پاکستان کو سیراب کیا‘‘۔ آغا شورش کاشمیری نے مادرِ ملت کو خراج
عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا: ’’وہ اپنے بھائی کی ہو بہو تصویر ہیں۔ بلند و
بالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قیامت، گلابی چہرہ، ستواں ناک،
آنکھوں میں بلا کی چمک، ہر چیز کی ٹٹولتی ہوئی نظریں، سفید بال ماتھے پر
جھریوں کی چنٹ، آواز میں جلال اور جمال، چال میں کمال ، مزاج میں بڑے
آدمیوں کا سا جلال ، سرتاپا استقلال، رفتار گفتار میں سطوت، کردار میں عظمت،
قائداعظم کی شخصیت کا آئینہ، قائد اعظم کی معنوی صفات کے عکس، صبا اور سنبل
کی طرح نرم ، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قرب
سے حشمت کا احساس ہوتا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوو نما پاتی ہے ۔ بھائی
شہنشاہ بہن بے پناہ‘‘۔(مادرِ ملت:ص ۳۳ تا ۳۵)
آپ سیاسی بصیرت میں قائد اعظم کی حقیقی جانشیں تھیں۔ آپ نے اپنی زندگی بھی
قائد اعظم کی طرح مسلمانانِ ہند کی آزادی اور تحریک پاکستان کے لیے وقف
کردی تھی۔ آپ نے پوری عمر شادی نہیں کی۔ آپ نے اپنے بھائی اور پاکستان کوہی
اپنا مقصدِ حیات بنالیا تھا۔ آپ نہایت سادہ زندگی گزارتیں، آپ صبح سویرے
بیدار ہوجاتیں، اخباروں کا مطالعہ کرتیں، ناشتہ کرنے کے بعد مختلف مشاغل
میں مصروف ہوجاتیں۔ آپ سے جو بھی ملاقات کرنے آتا تو اس سے نہایت خندہ
پیشانی سے پیش آتیں۔ آپ آہستہ گفتگو کرتیں، ہر بات کو اچھی طرح سمجھاتیں۔
آپ سے جو بھی ایک بار مل لیتا تو عمر بھر کے لیے آپ کا مداح ہوجاتا۔جب کوئی
شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو اسے یہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ قائد
اعظم کے روبرو ہے اور قائد اعظم سے ہم کلام ہے۔ آپ کی گفتگو اور شکل و صورت
سے تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کی یاد تازہ ہوجاتی۔
مادرِ ملت کو پاکستان کی سر زمین سے بے حد محبت تھی۔ قائد اعظم کی وفات کے
بعد انہوں نے آخری سانس تک دل وجان سے پاکستان اور مسلم لیگ کی رکھوالی کی
۔ آپ کی وطن پرستی کا ایک واقعہ بیگم مطلوب الحسن اس طرح بیان کرتی ہیں کہ
جب محترمہ فاطمہ جناح کی صحت مسلسل خراب رہنے لگی تو ہم نے انہیں مشورہ دیا
کہ وہ یورپ جاکر اپنا علاج کرائیں لیکن انہوں نے جواب میں ہمارا مشورہ
مسترد کردیا اور کہا:’’ میں یورپ نہیں جاؤں گی بلکہ میں یہیں اپنے وطن میں
اپنا علاج کرواؤں گی‘‘۔ بیگم مطلوب الحسن کہتی ہیں کہ وہ اپنی دگرگوں صحت
کے بارے میں ہماری باتیں نہایت توجہ سے سنتی تھیں مگر ملک سے باہر جانے
والے مشورے کو ہمیشہ سختی سے رد کردیتیں۔ آخر رشتہ داروں کے اصرار پر وہ
رضا مند ہوئیں بھی تو چند ہفتے جرمنی میں قیام کرکے واپس آگئیں۔ اس سے صاف
ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غیر ملکی ڈاکٹروں پر ملکی ڈاکٹروں کو ترجیح دیتی تھیں۔
(مادرِ ملت: ص۴۰)
مادرِ ملت نے اپنی پوری زندگی حق و صداقت کی آواز بلند رکھی۔آپ تحریک
پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بشا نہ رہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی آپ
جرأت ، بہادری، ہمت، شجاعت اور دلیری سے آنے والی رکاوٹوں اور مشکلات کا
مقابلہ کرتی رہیں۔ اپنے عظیم بھائی کی وفات کے صدمے اور بڑھاپے کے باوجود
آپ نے عزم و استقلال سے تقریباً بیس سال تک پاکستانیوں کی فلاح وبہبود کے
لیے متعدد اقدامات کیے اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت اور ہنر
سکھانے کے لیے قابلِ فخر اقدامات کیے۔ بالآخر آپ ۹ جولائی ۱۹۶۷ء کو ۷۶ سال
کی عمر میں کراچی میں دار فانی سے کوچ کرگئیں۔آپ کی وفات کی خبر لوگوں کو
اچانک ملی اس سے قبل بیماری کی کوئی خبر نہیں تھی۔ چنانچہ ابتداء میں لوگوں
نے اس خبر کو افواہ قرار دے کر مسترد کردیا۔ کوئی بھی آپ کی وفا ت کی خبر
کو قبول کرنے پر رضامند نہیں تھا کیونکہ آپ نے ایک دن قبل ہی میر لائق علی
کی بیٹی کی شادی میں بھی شرکت کی تھی ۔ ہاں آپ بوڑھی ضرور تھیں لیکن تندرست
تھیں، لیکن جب ریڈیو پاکستان نے پروگرام روک کر مادرِ ملت کی وفات کی خبر
سنائی تو عوام کو اس پر یقین کرنا پڑا۔خبر کی تصدیق ہوتے ہی پورا ملک رنج و
غم میں ڈوب گیا، ہزاروں لوگ قصر فاطمی کے قریب جمع ہوگئے ۔ ہر آنکھ اشکبار
تھی۔ آپ کی وفا ت پر اگلے دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔سرکاری عمارتوں پر
قومی پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ آپ کی نمازِ جنازہ دو مرتبہ پڑھائی گئی۔ پہلی
مرتبہ قصر فاطمہ میں ہوئی اور دوسری مرتبہ پولو گراؤنڈ میں ہوئی جس میں
کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد آپ کو کراچی میں قائد اعظم کی
قبر کے بائیں جانب ایک سو بیس فٹ دور ’’مادر ملت زندہ باد ‘‘کے نعروں کے
سائے میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی وفات سے
جمہوریت کے فروغ اور فلاح و بہبود کی سرگرمیوں کا ایک ایسا سنہری دور ختم
ہوا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نایاب ہے۔ |