صداقتوں کی سفیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا

لوک دانش کا یہی تو ہے کہ جب بھی بروئے کار آئی بصورت کمال آئی۔ ہماری تاریخ میں اٹھارہ فروری کا دن اسی لوک دانش کے عظیم مظہر کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اسی لوک دانش کی عطا ہے کہ پارلیمان اپنی بالادستی اور حاکمیت کے سفر کا آغاز کرچکی ہے۔ اس سفر کا آغاز مبارک بھی ہے اور خوبصورت بھی کہ تین چوتھائی ووٹوں کی اکثریت سے ایک باوقار اور خوش خصال خاتون ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سپیکر کی مسند عالیہ پر رونق افروز ہوچکی ہیں۔ایک جانب کم و بیش اسی فیصد کی اکثریت سے سپیکر کا انتخاب اپنی جگہ پر بہت جاندار اہمیت کا حامل ہے تو دوسری جانب ایک خاتون کا جمہوریت کے قافلہ سالاروں میں شامل ہونا ان گمراہ کن دعوؤں کی پرزور نفی ہے جن کے مطابق ہم ایک ایسا معاشرہ قرار دئیے جاتے رہے جو جمہوریت کے تسلیم شدہ معیاروں سے دو چار صدیاں دور ہے اور جو ابھی اس لائق نہیں ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی بات بھی کی جائے۔ میں نہیں جانتا کہ Empowerment of Womenکا راگ الاپنے والوں نے ایک عورت کو پہلی مسلمان سپیکر ہونے پر مبارکباد کا کوئی پیغام بھیجا ہے یا نہیں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کیلئے ہونے والی ووٹنگ کے شاندار نتائج کے بعد پارلیمان میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے ایک عام نشست سے اٹھ کر مسند عالیہ پر تشریف فرما ہونے کیلئے اٹھتے ہوئے قدم اس حقیقت کا اعلامیہ تھے کہ پاکستانی معاشرہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور کجیوں کے باوجود نہ صرف ایک زندہ معاشرہ ہے بلکہ اپنے باطن میں اس قدر روشن خیال بھی ہے کہ جنس کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی غیر انسانی تقسیم سے بھی دست بردار ہونے میں اسے کبھی تامل نہیں ہوا۔یہی وہ معاشرہ ہے جو اس سے پہلے دو بار ایک عورت کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز کرچکا ہے اور اسی ہستی کو اس کی شہادت کے بعد تا ابد غیر متنازعہ شہید کی حیثیت سے قبول کرچکا ہے۔

یہ سب بجا لیکن تصویر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ایک رخ نہیں ہوتا۔ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا انتخاب نہایت خوش کن سہی لیکن یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے۔اس کا دوسرا رخ پورے وجود کو جھرجھرا کر رکھ دیتا ہے۔اس رخ کو دیکھ کر یہی گمان گذرتا ہے کہ ہم بیک وقت دو مختلف سمتوں میں محو سفر ہیں۔بوالعجبی یہ ہے کہ ایک جانب تو ہم ہوشمندی اور انسانی اوصاف میں دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کے ہمسر ہیں لیکن دوسری جانب بدترین قبائلی روایات اور رویوں میں بھی ناک تک ڈوبے پڑے ہیں۔تسلیم کہ ہم عورت کو تکریم دینے اور اس کی قیادت قبول کرنے میں تامل نہیں کرتے لیکن یہ بھی عیاں کہ ہم پچھڑے ہوئے طبقوں خصوصاً عورت کو انسانیت کے کسی بھی درجے پر قبول کرنے سے یکسر انکاری ہیں۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی نسوانیت کو لائق تکریم و شرف جاننا قابل تحسین لیکن جس روز ہم نے اپنے تہذیب یافتہ ہونے کا ثبوت دیا صرف اس ایک دن میں ملک بھر میں جانے کتنی فہمیدہ مرزائیں تھیں جو اپنے عورت ہونے کے جرم کا تاوان اپنی آبرو کی صورت ادا کرنے پر مجبور ہوئیں۔اس روز میں اتفاق سے ایک مصروف شاہراہ کے سگنل پر رکا تو اچانک پیچھے سے ایک بگڑا ہوا نوجوان ٹریفک کے ہجوم میں ہوا کے گھوڑے پر سوار نمودار ہوا۔اس نے سرخ سگنل کو تحقیر بھری نظروں سے دیکھا اور سگنل کے احترام میں رکی ہوئی ٹریفک کو محض یہ بتانے کیلئے کہ وہ قانون سے بالاتر ہے اس نے گاڑیوں میں سے اپنے لئے راستہ بنایا اور سگنل توڑنے کے ارادے سے آگے بڑھا۔اس سے پہلے کہ وہ قانون شکنی کے لطف سے سرشار ہوکر آگے بڑھ جاتا چوک پر موجود ایک خاتون ٹریفک وارڈن اس کی شور مچاتی موٹر بائیک کے عین سامنے دیوار بن گئی۔اگر کوئی مرد پولیس والا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی لیکن کیا مجال ایک عورت کی بھلے وہ یونیفارم میں ہو کہ وہ مردانہ سرکشی کی راہ میں حائل ہوجائے۔اس بے ہنگم نوجوان کو بھی یہ کب گوارا تھا۔ محو تماشا آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ وہ نوجوان شرمندہ ہونے کی بجائے اس خاتون ٹریفک وارڈن پر بری طرح بگڑنے لگا۔ وہ پہلے تو بزبان گالی اس کی نسوانیت پر حملہ آور ہوا اور جب اس پر بھی وہ اس سے خوف زدہ ہونے پر تیار نہ ہوئی تو اس نے بھنا کر موٹر سائیکل وہیں سٹینڈ کی ۔صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اسے زدوکوب کرکے اسے اپنی مردانہ شان دکھانے کا ارادہ باندھ رہا ہے۔یہ الگ بات کہ خاتون کو اپنے ساتھیوں کی کمک میسر آگئی اوروہ تہذیب نا آشنا نوجوان اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ چوراہے پر موجود ٹریفک کے اژدھام میں موجود کم و بیش ہر مرد اس منظر کو ایک دلچسپ نظارے کے طور پر انجوائے کررہا تھا ۔ان میں شاید کم ہی ایسے تھے جو کسی عورت کو یہ حق دینے پر تیار ہوں گے کہ کوئی عورت بھلے کسی مرد کی سرکشی کی نفی کرسکے۔

اس روز جب ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا انتخاب عمل میں لایا جارہا تھا میں نے شہر کے ایک مصروف چوراہے پر جو منظر دیکھا وہ اپنی نوعیت میں اس قدر غیر اہم ہے کہ شاید قابل ذکر بھی نہ ٹھہرے لیکن عورت کی تکریم کے حوالے سے عین ان لمحوں میں جانے کہاں کہاں ’’قابل ذکر‘‘ سانحے رونما ہوئے ہوں گے۔ایسے سانحے جو کسی دو خبری سطر کا عنوان بھی نہ بن سکے ہوں گے لیکن کم از کم ایک سانحہ تو ایسا ضرور ہوا ہے جو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی فوری توجہ کا طلبگار ہے۔اخبارات میں رپورٹ ہونے والا یہ سانحہ کہیں اور نہیں بابائے قوم کے مزار کے احاطے کے اندر پیش آیا ہے۔جس نوبیاہتا خاتون کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک ہوا ہے محض اتفاق سے وہ کسی سیاسی جماعت کی سرگرم لیڈر ہے نہ پارلیمنٹ میں رونق افروز ہے۔ اس کا باپ بھی اپنی غربت سے لڑنے کی مصروفیت میں یوں غلطاں رہا کہ پارلیمنٹ کا رکن ہونا بھول گیا تھا۔اس کے بھائی کے پاس بھی اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں منتخب ہوکر معزز ایوان کو اپنی گرم گفتاری سے گرما سکے۔اس کا نوجوان شوہر بھی کسی پارلیمنٹ کا حصہ ہے نہ کوئی بڑا صنعتکار ہے۔وہ مسکین لوگ لودھراں سے کراچی ہنی مون منانے آئے تھے لیکن بابائے قوم کے احاطے میں جو اپنی معنویت کے اعتبار سے ہر پاکستانی کی جائے امان قرار پاتی ہے اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے ۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا پارلیمنٹ کی مسند عالیہ پر سرفراز ہونا نیم انسانی درجے پر فائز عام پاکستانی عورت کیلئے تقویت کا باعث ہے۔وہ ایک کامیاب اور سرگرم پارلیمنٹیرین ہی نہیں ایک عورت بھی ہیں۔وہ ایک قابل قدر سیاسی جدوجہد کا حصہ بھی رہی ہیں۔پارلیمنٹ کے سپیکر کی حیثیت سے پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کام کرنا یقینا ان کا فرض اولین ہے لیکن وہ یہ بھی ضرور جانتی ہوں گی کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ معاشرے کے تمام کمزور طبقوں خصوصاً عورتوں کی آواز کو بالادستی نصیب نہیں ہو گی۔ڈاکٹر صاحبہ اس حقیقت کے ساتھ اپنا ذہنی رشتہ جوڑ پائیں تو اس میں ان کا بھی بھلا ہے اور اس جمہوریت کا بھی بھلا ہے جس کے طفیل وہ عز و شرف سے ہمکنار ہوئی ہیں۔
SAIF ASHIR
About the Author: SAIF ASHIR Read More Articles by SAIF ASHIR: 60 Articles with 106546 views I am 22 years old. .. View More