مولانا محمد سرور ؒاور اُن کی یادیں

( مولانا محمد سرور مرحوم جماعت اسلامی راولپنڈی کے رہنما اور ہردلعزیز سماجی کارکن تھے۔ان کی حیات و خدمات کے تذکرہ پر مشتمل کتاب : مرجع خلائق: کی تقریب رونمائی 16 ستمبر کو راولپنڈی پریس کلب میں ہو رہی ہے۔درج ذیل تحریر اسی مناسبت سے قارئین کی نذر ہے)

مولانا محمد سرور بھی دارالامتحان کو چھوڑ کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں ۔بلاشبہ جو ذی روح بھی یہاں آتاہے۔ اس نے ایک دن ضرور یہاں سے کوچ کرنا ہوتاہے۔ یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تا روز قیامت جاری رہے گا۔ہر جانے والے کا غم ضرور ہوتا ہے اور اس کی کمی بھی محسوس کی جاتی ہے۔تاہم اسے اﷲ رب العالمین کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے ۔صدمے اور غم سے نڈھال افراد خانہ اور لواحقین کوملنے والا ہرآدمی صبر اور حوصلے کی تلقین کرتا ہے۔اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔اﷲ کے فیصلوں میں حکمت کو وہ خود ہی بہتر جانتا ہے۔ انسانی عقل کی وہاں تک رسائی نہیں ہے۔پھر وقت کا انتخاب بھی تو وہ خود ہی کرتا ہے۔ انسان کی بے بسی اور عقل کی بے چار گی یہاں بھی واضح ہے۔انسان کتنا بے بس اور مجبور ہے ۔ اس کاشدت سے احساس ہر فرد کو اس وقت ضرور ہوتا ہے کہ جب اس کی والدہ ٗ والد ٗ بھائی ٗبہن ٗبیٹا ٗبیٹی ٗ بیوی یا کسی اور قریبی عزیز کا انتقال ہو جا تا ہے ۔اس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔دُنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ جانے والے کا غم ایک پہاڑ کی طرح بوجھ بن کر آن پڑھتا ہے۔گزرے ہوئے دنوں کی یادیں بار بار آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔جانے والے کی باتیں ٗاس سے ہونے والی ملاقاتیں۔باہمی تعلق اور رشتے کے حوالے سے واقعات کا ایک ہجوم ہوتا ہے کہ جو اُمڈا چلا آتا ہے۔دل صدمے میں ڈوبا ہوا ہے اور آنکھوں سے آنسوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس پر یہ کیفیت گزرتی ہے ٗ وہی اس کو جانتا ہے۔ سچ ہے کہ۔ ۔ ۔ جس تن لاگے ٗ سو تن جانے۔۔۔۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت گہرے سے گہرے زخم بھی مندمل کر دیتا ہے۔زندگی کی گاڑی چند دنوں کے بعد پھر سے رواں دواں ہو جاتی ہے۔ روز مرہ کے معاملات میں انسان مشغول ہو جاتا ہے ۔ لیکن اس بات کوبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ زندگی میں بہت سارے مواقع ایسے آتے ہیں کہ جانے والے کی یاد بڑی شدت کے ساتھ آتی ہے ۔اس وقت انسان ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہتا ہے کہ کاش آج میرا فلاں بھی زندہ ہوتا ۔

مولانا محمد سرورؒ کا نام 1982 میں سُنا ۔جب انہو ں نے مسجد مائی جان گلی نمبر 3علامہ اقبال کالونی ٹنچ بھاٹہ میں خطیب اور امام کی حیثیت سے ذمہ داریا ں سنبھالیں ۔دیکھتے ہی دیکھتے مسجد مائی جان جماعت اسلامی کی دعوتی ٗ تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی تھی۔مجھے بھی بارہا وہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔اس وقت کے امیر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی راجہ محمد ظہیر خان (مرحوم )نے بتایا تھا کہ مولا نا محمدسرور اس سے قبل تحصیل فتح جنگ کے ایک گاؤں گلی جاگیر میں امام اور خطیب تھے ۔وہاں بھی مجھے (راجہ محمد ظہیر خا ن ؒ) ٗ علامہ عنایت اﷲ گجراتی ؒاور دیگر قائدین اور علما کرام کو مختلف پروگراموں کے لئے بلا یا کرتے تھے۔راجہ محمد ظہیر خان (مرحوم)مولانا محمد سرور ؒکی تحریکی اور دعوتی سرگرمیوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انکی شخصیت کو دیگر کارکنان کے لئے ایک رول ماڈل قرار دیتے تھے۔ مولانا محمد سرورؒجہاں ایک طرف سراپا دعوت اور ایک متحرک کارکن تھے ۔دوسری طرف عجز و انکساری کا مجسمہ تھے۔شائستگی اور حسن اخلاق کا پیکر تھے۔قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔صلہ و ستا ئش کی پرواہ کئے بغیر جو بات دل میں ہوتی ٗ بلا جھجک اس کا اظہار اپنی زبان سے بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے مختلف سطح کے اجلاس ہوں یا ضلع ا و رشہر کی مجلس شوریٰ میں کسی بھی معاملے میں مولانا محمد سرورؒ کی رائے کو توجہ سے سنا جاتا تھا ۔وہ اپنی بے لاگ اور دو ٹوک رائے کے لئے مشہور تھے ۔سماجی مسائل اور معاملات میں دلچسپی لیتے تھے۔گلی محلے میں کسی بیوہ یا طالب علم کا کوئی مسئلہ ہو یا ملکی اور عالمی سطح پر امت مسلمہ کو کو ئی معاملہ اور مشکل درپیش ہو ٗ وہ تڑپ اُٹھتے تھے۔اپنے ارد گرد کے علاقہ کی بیواؤں اور ضعیفوں کے بل ادا کرنے سے لے کر ان کی روز مرہ کی اشیاء دوکانوں سے خرید کر لانے تک کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ محلے میں پانی کا کوئی مسئلہ ہوا تو مولانا محمد سرور اس کی خبر اخبارات میں چھپوانے کے لئے سرگرم ہوجاتے تھے۔ محلے اور علاقے کی سطح کے مسائل کے حوالے سے مظاہر ے اور احتجاج کا اہتمام کرنے میں بھی پیش پیش ہوتے تھے۔ پھر اگلے دن محلہ کے معززین کا وفد لے کر کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر پہنچ جاتے ۔ اپنے صاف ستھرے کردار اور عوامی قوت کے بل بوتے پرمتعلقہ محکمے کو مسئلہ حل کرنے پر مجبور کر دیتے تھے۔۔مقامی مسائل کوحل کروانے کے لئے وہ ہمیشہ ایک قائد کا کردار ادا کرتے تھے۔اگر چہ وہ ایک قائد اور رہنما تھے مگر ہمیشہ اپنے آپ کو ایک کارکن کے انداز میں پیش کرتے تھے۔ان کی یہی وہ خوبیاں تھیں کہ جن کی وجہ سے اہل محلہ بھی ان پر اعتماد کرتے اور اپنے چھوٹے موٹے گھریلومعاملات سے لے کرمحلے اور علاقے کے مسائل کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے جہاں قرآن و سنت کی تفہیم کے لئے بڑی تعداد میں کتابیں لکھی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کار بھی تیار کئے ہیں کہ جو چلتی پھرتی کتاب تھے۔ایسے افراد کو دیکھ کر ٗ اُن سے مل کر اورانہیں سن کر اﷲ پر ایمان اور پختہ ہو جاتا تھا۔بلا شبہ مولانا محمد سرورؒ بھی سید مودودیؒ کی فکر کے تیار کردہ ایک ایسے ہی فرد تھے کہ جو بیک وقت ٗ کارکن ٗ مدرس ٗ امام ٗواعظ ٗقائد ٗ خطیب ٗمربی ٗمحسن اورغم خوار بھی تھے۔بلا شبہ مولانا محمد سرور ؒسید مودودی ؒ کے الفاظ کے مطابق مرجع خلائق تھے۔بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ ہر علاقے اور ہر بستی میں ایسے ہی افراد تیار کرنا چایتے تھے۔ میں نے ایک بزرگ سے سنا ہے کہ ایک مقدمے میں جج نے جماعت اسلامی کے رکن کی گواہی پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ : مجھے یقین ہے کہ جماعت اسلامی کا رکن جھوٹ نہیں بول سکتا:۔اب ایسے لوگ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈھونڈ انہیں اب چراغ رُخ زیبا لے کر
وہ مردان کار اب بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں ۔ جو براہ راست مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ سے مستفید ہوئے تھے۔ 5 ۔اے ذیلدار پارک کی عصری مجالس ہوں یادیگر اجتماعات اور پروگراموں میں اپنے قائد کو دیکھنے اور سننے والے اور ان کی پُر اثر تحریریں پڑھنے والوں نے اپنی عملی زندگیوں میں اعلائے کلمتہ الحق کا فریضہ ادا کرنے کا عہد کیا تھا۔بے شک ان میں سے ایک ایک فرد سیرت و کردار کے لحاظ سے اعلیٰ درجے پر فائز تھا۔ سید مودودیؒ کے تیار کردہ یہ ہیرے ٗ موتی اور لعل اپنے اپنے مقام پر ایک پوری جماعت کے برابر تھے۔زمانے نے دیکھا کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ قرآن و سنت ہی ان کی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا تھا۔انہوں نے اپنے خاندان ٗ قوم اورقبیلے کے رسوم و رواج کی بجائے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنا لیا تھا۔اﷲ رب العالمین کے حکم اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں اپنے ماں ٗ باپ ٗ اولاد اور دیگر عزیز و اقربا ٗحتیٰ کہ معاشرے اور حکومت کی بھی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ حق پر قائم رہے اور ہر حال میں سچی بات کی ۔اپنے اصولی موقف کی وجہ سے اپنے گھر بار ٗ عزیزو رشتہ داروں اور حکومتوں کی طرف سے بھی مصائب و آلام کا شکار رہے ۔ انگریز کا دور حکومت ہو یا اپنے مسلمانوں بھائی بندوں کی حکمرانی ہو۔ وہ ہر معاملے میں سنت نبویﷺاور آثار صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پیر و ی کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ زمانے نے دیکھا کہ سید مودودیؒ کے ان بے لوث ساتھیوں میں سے کئی ایک کو ان کے والدین نے گھروں سے نکال دیا۔ کئی ایک ایسے تھے کہ جن کو سرکاری ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ فریضہ اقامت دین کی اس تحریک کا کارکن بننے کی پاداش میں تنگی اور عُسرت کے دور بھی آئے۔ مختلف جھوٹے مقدمات میں جیلوں کی ہوا بھی کھانی پڑی۔قید و بند کی سختیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔مگر کسی ایک کے پائے استقلال میں بھی لغزش تک نہ آئی۔ خود سید مودودیؒ کو قادیانی مسئلہ نامی ایک رسالہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت سنا دی گئی ۔ فوجی جج نے کہا کہ آپ(مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی) اگر چاہیں تو رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔ مگر مولانا نے اسی وقت عدالت میں ہی یہ تاریخی جملہ کہہ کر قصہ تمام کردیا کہ موت اور زندگی کے فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔اور اپنے اہل خانہ کو بھی اپیل داخل کرنے سے سختی کے ساتھ منع کردیاتھا۔سید مودودیؒ اور ان کے ساتھیوں کا کردار تو ایک روشن مینارہ ہے ٗ کہ جو آنے والے زمانوں کو بھی واضح پیغام دیتا چلا آرہا ہے۔
بنا کردن خوش رسمے کہ خاک و خون غلطیدن ۔ خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را

1988 میں جب قاضی حسین احمد ؒ امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے۔ اس وقت راولپنڈی ضلع میں راجہ محمد ظہیر خان ؒ امیر تھے۔ضلعی سطح پر ایک مشاورت ہوئی ٗ جس میں یہ طے ہوا کہ نو منتخب امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے اعزاز میں ایک پُروقار تقر یب کا انعقاد کیا جائے گا۔راجہ محمد ظہیر خان ؒ تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ نو بہ نو افکار اور ندرت خیال ان کا خاصہ تھا۔ ضلعی تربیت گاہوں اور دیگر دعوتی اور سیاسی پروگراموں میں ایسے ایسے عنوانات اور سر نامے طے کرتے اور پیش کرتے تھے ٗکہ جس سے ان کے اعلیٰ علمی اور سیا سی ذوق کا اظہار ہوتا تھا۔اس کے ساتھ ہی پروگرام میں شرکا کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوجاتا تھا۔ راجہ محمد ظہیر خانؒ نے تجویز دی کہ اس تقریب کی صدارت کے لئے ضلع کے کسی ایسے کارکن کومنتخب کیا جائے کہ جو واقعی ایک مثالی کارکن ہو۔ راقم الحروف نے مولانا محمد سرور ؒکا نام پیش کیا۔ ان کی خدمات اور کام کے حوالے سے بات کی ۔ راجہ محمد ظہیر خان ؒسمیت سب نے اس نام پر اتفاق کیا اور طے پایا کہ راولپنڈی کے تاریخی مقام لیاقت باغ کے وسیع میدان میں استقبالیہ تقریب منعقد کی جائے گی ۔ بلاشبہ لیاقت باغ میں منعقد ہونے والی اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد ٗ باوقار اوریادگار تقریب تھی۔ قاضی حسین احمدؒسمیت تمام قائدین اور ارکان و کارکنا ن نے اس آئیڈیا کو پسند کیا۔امیر جماعت سے لے کر عام کارکن تک مولانا محمد سرور ؒ کی جماعت اسلامی کے لئے بے لوث خدمات اور شبانہ روزجدوجہد سے سب ہی واقف تھے۔ہر ایک کی زبان پر تھا کہ مولانا محمد سرورؒہی اس صدارت کے لئے موزوں اور اہل تھے۔ اخبارات میں بھی اس بات کا چرچا رہا کہ جماعت اسلامی کام کرنے والے کارکنان کی نہ صرف قدر کرتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ ایک بڑے پروگرام کی صدارت ایک کارکن سے کرو انے کے فیصلے میں دیگر کارکنان کے بھی ایک پیغام تھا۔کیونکہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت اور دوڑ اسلام کی تعلیم ہے۔

مولانا محمد سرورؒاپنی گلی ٗمحلے اور وارڈ یا زون کی تمام تحریکی دعوتی ٗ تربیتی ٗتنظیمی ٗ سماجی ٗ سیاسی اور دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔مولانا محمد سرور ؒاپنی مسجد کے خطیب اور امام کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے پرُجوش رکن اور رہنما بھی تھے۔ وہ مختلف ادوار میں مقامی جماعت اور پھر پی پی 4 راولپنڈی کینٹ کی جماعت کے ناظم کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی سر انجا م دیتے رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے حلقے سے راولپنڈی شہر اور ضلع کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں ۔ زلزلہ ہو یا سیلاب وہ متاثر ین کی امداد اور بحالی کے کاموں میں تندہی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔متاثرین کے لئے عطیا ت اور دیگر ضروری سامان خوردو نوش کے علاوہ موسم کے لحاظ سے کپڑوں کا بھی بندوبست کرتے ۔اس ہنگامی صورتحال میں ان کی رہائش اور مسجد مائی جان تمام سرگرمیوں کا مرکز ہوتی تھی۔ متاثرین کی امداد کے لئے خود ہی بازاروں اور گلیوں میں ایک ایک دوکان اورگھر میں جا کر امداد کی اپیل کرتے ۔ اہل محلہ اور مخیر خواتین و حضرات سے عطیات اور دیگر اشیائے ضروریہ وصول کر کے جماعت اسلای کے مرکزی دفتر مریڑ چوک میں جلد از جلد پہنچانے کا بندو بست کرتے۔ان کی یہی کیفیت عید الاضحی کے دنوں میں قربانی کے حوالے سے بھی ہوتی۔عید سے پہلے کھالوں کے لئے رابطہ اور پھرقربانی کے بعد کھالوں کی وصولی اور مرکزی گودام میں پہنچانے کے لئے سرعت کے ساتھ اپنی نگرانی میں تمام امور کی انجا م دہی سے ان کے خلوص اور دینی جذبہ و لگن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کے دین اور مخلوق خدا کی خدمت کے حوالے سے اس طرح کی بے چینی اور بیقراری کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مولانا محمد سرور ؒ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ مولا نا محمد سرورؒ کی انہی خوبیوں اور اﷲ کے دین کے لئے ان کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے راجہ محمد ظہیر خان ؒان کو :بے چین روح :کہا کرتے تھے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

جب بھی راولپنڈی شہر کی سطح پر یا ضلع اور مرکز کا کوئی پروگرام ہوتا تو مولانا محمد سرورؒ کے حلقہ سے مرد و خواتین کی بسوں ٗ ویگنوں ٗ سوزوکیوں اور ذاتی گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوتی تھی۔ راولپنڈی پریس کلب میں ماہانہ درس قرآن ہو یا کوئی مظاہرہ ٗ5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کی ریلی ہو یاکوئی اور جلسہ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہونے والے ہر چھوٹے اور بڑے پروگرام میں مردوں ٗ عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ شرکت گویا ان کی پہچان بن چکی تھی۔ اپنی نگرانی میں ہی ایک خاص ترتیب اور منظم طریقے سے لوگوں کو لے کر جاتے اور پھر اسی انداز اور ترتیب کے ساتھ تمام مرد وخواتین اور بچو ں کو واپس لے کر بھی آتے۔راستے میں آتے جاتے ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھتے ۔ باالخصوص نمازوں کی ادائیگی کا بروقت اہتمام کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کی تما م سرگرمیوں میں دلی جوش و جذبے اور والہانہ محبت و شوق کے ساتھ نہ صرف خود شریک ہوتے بلکہ اپنے حلقے کے مردوں اور خواتین کو بھی بڑی تعداد میں شریک کرنے کے لئے ذاتی طور پر ایک ایک گھر ٗ دکان اور دفتر میں جا کر دعوت دیتے۔پھر متوقع افراد کی تعداد کے مطابق اجتما عی سفر کا اہتمام کرتے ۔ اس طرح پہلے قدم سے لے کر واپسی تک کے سارے انتظامات خود اپنے ہاتھو ں سے انجام دیتے ۔گویاوہ دعوت ٗ خدمت ٗ رہنمائی ٗشفقت اور ہمدردی و غم گساری کا ایک مکمل نمونہ تھے۔اپنے حلقہ کے ارکان و کارکان کے دکھ سُکھ میں شرکت کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے تھے۔ شادی اور غمی کے مواقع پر بھی وہ سرگرم رہتے اور اپنی خدمات پیش کرتے تھے۔ راولپنڈ ی شہر اور کینٹ کے علاوہ ضلع کے دور دراز علاقوں اور دوسرے اضلاع میں بھی غمی کے مواقع پر ضرور حاضر ہوتے ۔ غمزدہ خاندان سے تعزیت کرتے ۔جانے والے کے لئے مغفرت کی دُعا کرتے ۔اُن کا دُکھ بانٹتے ٗانہیں صبر اور حوصلے کی تلقین کرتے تھے۔

مولانا محمد سرور ؒ کی زندگی جہد مسلسل کا دوسرا نام تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو گونا گوں خوبیوں اورصلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ جہاں عام افراد کو جماعت اسلامی میں لانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔جبکہ دوسری طرف کسی بھی فرد کو جماعت اسلامی کا رکن بنانے کے سلسلے میں قواعد و ضوابط کی پوری پوری پابندی کے سختی کے ساتھ نہ صرف قائل تھے ٗ بلکہ اس ضمن میں قدرے سخت بھی واقع ہوئے تھے۔ امیدوار رکن کے لئے اجتماعات میں حاضری ٗتفویض کردہ کاموں کی خوش دلی اور سرعت کے ساتھ انجا م دہی اور نصاب رکنیت کے مکمل مطالعے کے ساتھ ساتھ مقامی حلقے اور جماعت کے کاموں میں دلچسپی کو ضروری گردانتے تھے۔ قرآن و حد یث اور تحریکی لٹریچر کے مطالعے کے علاوہ با جماعت نمازوں کی کیفیت ٗ محلے داروں اور عزیز و اقارب کے ساتھ تعلقات اور رویوں کو بھی جا نچتے رہتے تھے۔ارکان و کارکنان کے دینی ٗمعاشی ٗ سیاسی ٗمعاشرتی اور سماجی معاملات پر بھی نظر رکھتے تھے۔جہاں وہ اپنے ارکان و کارکنا ن کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ٗ وہیں اگر وہ کوئی کمزوری یا خرابی دیکھتے تو اس کو بھی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ متعلقہ فرد کے ساتھ ڈسکس کرتے یا پھراس کے امیر اور ناظم کے نوٹس میں لاتے تاکہ اس معاملے کو دیکھ کراس فرد کی اصلاح کی جا سکے۔اس سلسلے میں دو واقعات کا تذکرہ کر ناچاہتا ہوں ۔1990 ء کی دہائی میں جب ڈاکٹر محمد کمال صاحب امیر ضلع راولپنڈی تھے۔مولانا محمد سرور ؒ کے حلقہ کے ایک نوجوان عبدا لرزاق کو شعبہ نوجوانان کا ناظم بنایا گیا۔انہوں نے نوجوانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔کچھ عرصہ بعد ان کی رکنیت کی درخواست آئی۔ڈاکٹر محمد کما ل صاحب عبدالرزاق کو رکن بنانا چاہتے تھے۔ مقامی حلقہ کے اجتماع میں درخواست پیش کی گئی۔وہاں کچھ افراد نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ جن میں مولانا محمد سرور ؒ بھی شامل تھے۔مولانا نے ضلعی مجلس شوریٰ میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرزاق کی ذات اور اس کی جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مجھے ایسا رکن چاہیے کہ جو علامہ اقبال کالونی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کام کرے۔ عبدالرزاق کا تو زیادہ وقت افغانستان میں گزرتا ہے۔ محض رجسٹرمیں ایک رکن کا اضافہ کرنے کا کوئی فا ئدہ نہیں ہے۔ اسی طرح چوہدری محمد شریف (مرحوم) کی رکنیت کے معاملے میں بھی مولانا محمد سرورؒ نے بر ملا کہا کہ چوہدری صاحب ہمارے لئے بہت ہی محترم شخصیت ہیں۔جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی ایک طویل وابستگی بھی ہے۔ مگر افسوس کہ وہ نظم کی پابندی نہیں کرتے۔جما عت کے ذمہ داران سے مشاورت کے بغیر ہی از خود فیصلے کر لیتے ہیں ۔بعد ازاں اُن کی رکنیت ان کے آبائی علاقے تحصیل راولپنڈی سے منظور کروالی گئی۔یہ دو واقعات نمونے کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کئے ہیں ۔ان سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مولانا محمد سر ور ؒ نئے ارکان بنانے کے معاملے میں کتنی چھان بین سے کام لیتے تھے۔ بلاشبہ ان کی یہی خوبیاں جماعت اسلامی کے ساتھ ان کے قلبی اور روحانی تعلق کا پتہ دیتی ہیں۔ ان کی شبانہ روز جدوجہد اور سرگرمیوں کو سامنے رکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ وہ فنا ہ فی الجماعت تھے ٗ تو بے جا نہ ہوگا ۔ان کا اوڑھنا بچھونا دین اسلام تھا۔ یقینا وہ ایک ایسے شخص تھے کہ جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ جو احباب مولانا محمد سرور ؒ سے ملنے ان کے گھر یا مسجد مائی جان جاتے تھے ۔ ان کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی تھی کہ مولانا محمد سرور ؒ نے مسجد اور گھر سے پہلے اسی گلی میں ایک دارالمطالعہ بھی قائم کر رکھا تھا۔جس میں دینی کتب کے علاوہ تحریکی رسائل و جرائد بھی موجو د ہوتے تھے۔ ایک بڑے بورڈ پر اخبارات بھی آویزاں کئے جاتے تھے۔ روزنامہ جسارت جو کہ کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے مولانا محمد سرور ؒ علامہ اقبال کالونی سے اخبار مارکیٹ کالج روڈ کئی کئی ویگنیں اور سوزوکیاں تبدیل کرکے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اکثر سا ئیکل پراور کبھی کبھی پیدل جاتے ہوئے بھی دیکھے جاتے تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی کی خبریں مختلف اخبارات سے کاٹ کر بورڈ پر لگاتے تھے۔ یہ ان کا مستقل سلسلہ تھا کہ جو کئی عشروں پر محیط رہا ہے۔ان کی بیماری کے دوران ان کے بڑے صاحبزادے حافظ عبدالقدیر اسے ایک فریضہ سمجھ کر اداکرتے رہے ہیں ۔مولانا کی وفات کے بعد بھی دارالمطالعہ کا یہ سلسلہ ان کے صدقہ جاریہ کے طور پر چل رہا ہے۔

مولانا محمد سرور ؒ نے جہاں اپنے اہل محلہ اور علاقہ کو دین کی دعوت پہنچانے کا فریضہ بحسن و خوبی اور بطریق احسن ادا کیا ہے ۔ وہاں انہوں نے اپنے گھر پر بھی بھرپور توجہ دی ہے۔ الحمد ﷲ کہ ان کا گھر بھی ایک تحریکی گھر تھا۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کے بڑے صاحبزادے حافظ عبدالقدیر جماعت اسلامی کے رکن ہیں ۔ سرکاری ملازمت کے باوجو د تحریکی سرگرمیوں اور کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ علامہ اقبال کالونی میں ہی واقع مسجد سردار خان کے خطیب اور امام ہیں ۔ مولانا کی وفات کے بعد اب ان کی جامع مسجد مائی جان کے خطیب اور امام مقرر کئے گئے ہیں ۔ خاموش طبیعت کے مالک ہیں ۔ تحریکی رسائل و جرائد ٗکیسٹ اور آڈیو ویڈیو ایک دینی فریضہ سمجھ کر ساتھیوں تک پہنچاتے ہیں ۔اپنے والدمرحوم کی طرح اخلاص و مروت اور خوش اخلاقی ان کے رگ و پے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ مولانا محمد سرور ؒ کے دوسرے صاحبزادے عبدالودود ہیں ۔وہ دور طالب علمی سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے۔ مختلف ذمہ داریوں پر بھی فائز رہے ہیں ۔اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مرکزی شعبہ نشرو اشا عت میں کام کرتے رہے ہیں ۔ آج کل جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات ہیں ۔ مولانا محمد سرور کی شدید خواہش تھی کہ عبدالودود بھی جماعت اسلامی کے رکن بن جائیں ۔ مولانا کی زندگی میں تو عبدالو٭دود رکن نہ بن سکے مگر ان کی وفات کے بعد اب وہ جماعت اسلامی کے رکن بن چکے ہیں ۔ دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولانا محمد سرور ؒ کی مغفرت فرمائے۔ ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔ قبر اور آگے کے تمام مراحل میں آسانیاں فرمائے۔ ان کی نیکیوں کو شرف قبولیت بخشے ۔ لغزشوں اور کو تاہیوں سے در گزر فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین کے ساتھ جگہ عطا فرمائے ۔ ان کی اولاد کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنا دے ۔ مولانامحمد سرور ؒ لوگوں کے ساتھ انتہائی مروت ٗ شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کے ساتھ بھی شفقت ٗ محبت اور رحم والا معاملہ فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔٭٭٭

Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 52024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.