ملک کے چاروں صوبوں اور آزادکشمیر گلگت بلتستان میں
سیاستدانوں سے لے کر سرکاری حکام تک بشمول تمام خزانہ سرکار سے تنخواہوں
مراعات اوراثر و رسوخ کے حامل شعبہ جات کے اندر برسہا برس سے انصاف میرٹ
اور حق کو حق دار تک پہنچانے کے یقینی عمل کے بجائے ناجائز طریقوں سے حصول
کے قابض رحجان نے تباہی بربادی پھیلائی ہے اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی
ہے جس کا کم وقت اور محدود پیمانے پر جائزہ لینا ہو تو آزادکشمیر کا انتخاب
کرکے پورے ملک کے لیے امراض کی وجوہات ان کے علاج کے لیے پرامن مسلسل
جدوجہد درکار ہے اس میں نوجوانوں کا کردار سب سے اہم ہے جن کی بدولت ہی ملک
میں ووٹ کی طاقت سے تبدیلی کا پہلا دروازہ کھلا ہے اور راستے بناتے ہوئے
منزل کے حصول کیلئے ایمان ‘ اتحاد ‘ تنظیم کو صبر و استقامت کی توفیق اللہ
ناگزیر ہے یہ کیسا المیہ ہے کہ آزادکشمیرمیں میرپور انجینئرنگ یونیورسٹی
اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں یہاں کے کوٹہ پر تعلیم حاصل کر کے بی ایس
سی انجینئرنگ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ہر سال 365 ہوتی ہے یہاں کے
سرکاری محکموں میں رواں عشرے میں انجینئرز کی 80 اسامیوں پر پبلک سروس
کمیشن کے امتحان کے تحت صرف تین تقرریاں ہوئی ہیں پہلے تو محکمے اسامیوں پر
امتحان کے لیے پی ایس سی کو تحریک کرنے میں مختلف دباؤ رحجانات کے باعث ٹال
مٹول حیلے بہانوں کا شکار رہتے ہیں اور اسامیوں پر تحریک کر دی جائے تو پی
ایس سی بھی ان ہی دباؤ رحجانات سے آزاد نہیں ہے جس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ نو
سال سے کم و بیش 40انجینئرنگ اسامیوں پر امتحانات کا انعقاد نہیں ہوا ہے
ایک سال قبل ایک اسامی پر انٹرویو کال کیے گئے تو حکم امتناعی آ گیا جو
محکموں کی طرف سے موثر پیروی نہ ہونے کے باعث چل رہا ہے اور نوجوان
انجینئرز انتظار کی سولی پر اپنی عمر کی حد ختم ہونے کے غم میں مایوسی کا
شکار ہورہے ہیں یہ حال صرف انجینئرنگ یونیورسٹیز سے تعلیم مکمل کرنے والوں
کا ہے تو باقی چار یونیورسٹیوں اور تین میڈیکل کالجز سمیت ملک بھر کی
یونیورسٹیوں ‘ میڈیکل کالجز سے ہر سال تعلیم مکمل کرنے والے نوجوانوں کی
تعداد اور ان کے غم و الم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے باوجود اس کے
آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں خراب شہرت اور
پرائیویٹ سیکٹر بشمول بڑے سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو اخراجات
کے باعث تعلیم دلوانے کا سوچتے ہی نہیں ہیں سرکاری ملازم یا پھر کاروباری
اچھی حالت والے بچوں کا یہ حق ادا کرتے ہیں آزادکشمیر میں سینئر بیوروکریٹ
اور تعلیم سے جڑے بڑے ناموں کے مطابق یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں لڑکوں
کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہے پہلے صرف لڑکوں کا پوچھا
جاتا تھا وہ اچھاکاروبار کرتا ہے یا پھر سرکاری کسی اچھی ملازمت پر ہے اب
لڑکیوں کیلئے یہی کیفیت ہو چکی ہے اتنی بڑی تعداد میں ترقی یافتہ ملک بھی
ہوتا تو ملازمتیں ممکن نہیں تاہم ان میں انصاف ‘ میرٹ اور خود اعتمادی
مقابلے کے جذبے کے باعث کامیابی کا وسیلہ بنی ہوئی ہے جبکہ سرکاری پرائیویٹ
سیکٹرز کے تحت قومی منصوبہ جات میں بھی نصف منصوبہ جات ہیں وہاں بھی قومی
فکر کا فقدان علاقہ ‘صوبہ ‘شہر ‘زبان ‘ برادری اونچ نیچ جیسے تعصبات کے
باعث حق اس کے حق دار کو ملنے میں رکاوٹ ہے جن کی ذمہ داری بنتی ہے وہ اس
پر عملدرآمد کرائیں ان کا بڑے نام اور اثر و رسوخ کے سامنے بھگی بلی والا
طرز عمل ہوتا ہے تو کمزور بے وسیلہ لوگوں کے لیے یہ ناخدا بنے ہوئے ہیں
اپنی نااہلی چوری کمزوری اور مفادات کی ہوس خون چوسنے کاطرز عمل اور رویے
احساس محرومی کی آگ کو دوسروں پر ڈال کر پگڑی بھی نہیں گرنے دیتے جس کا
نتیجہ ہے کہ نوجوان ڈگریاں لیکر بھی نفرت ‘ اختلاف کے بنے ذہنوں کے باعث
باہر کھلے میدانوں ‘ شہروں میں جا کر مقابلے کے اظہار اور حصہ لینے سے خوف
زدہ ہیں یہ خوف کون ختم کرے گا جو محض ریت کی دیوار ہے مگر فولادی اعصاب
شکن اندھیرہ بن کر راج کر رہی ہے یقیناًنوجوانوں کو خود اس کے خلاف پرامن
شعوری فکری بیداری کی قطرہ قطرہ جیسے چڑیا کے کردار بن کر اپنا حصہ ادا
کرنا ہو گا اور کوٹہ جیسے معذور کر دینے والے رحجان پہچان یاجوج ماجوج
تعصبات کو دھکے دینے ہونگے ‘ حق ایڑیاں رگڑنے سے نہیں بل کہ جو جس کا حق ہے
اس کو دلانے کے عزم جدوجہد سے ملے گا اس کے لیے نفرتوں ‘ اختلاف برائے
اختلاف اور جذباتی کیفیت کو مفاداتی عناصر کی بھینٹ چڑھانے سے ہوشیار رہتے
ہوئے دلیل حقیقت صلاحیت استقامت درکار ہے ۔ |