تحریر: ایمن احمد
دنیائے ا سلام کی تاریخ میں بڑے بڑے فاتحین نے جنم لیا ہے۔محمد بن قاسم
جیسا سپہ سالار،محمود غزنوی جیسا شہسوار،ٹیپو سلطان جیسا نڈر حکمران،طارق
بن زیاد،موسیٰ بن نصیر اور یوسف بن تاشفین جیسے فاتح۔ ان تمام ہستیوں نے
عرصہ دراز تک عالم کفر کی رات کی نیند کو حرام کیے رکھا۔اقبالؒ نے بڑے
پرسوز انداز میں ان کی ہیبت کو الفاظ کا روپ دیا ہے۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
لیکن تاریخ اسلام میں صلاح الدین جیسا حکمران آج تک روئے زمین پردوبارہ
پیدا نہیں ہوا۔یہ کہانی اس دور سے شروع ہوتی ہے جب مشرق وسطیٰ کی فضائیں
صلیبیوں کا عروج دیکھ رہی تھیں۔جب مسلمان اپنی کٹھ پتلی حکومت کے رحم و کرم
پر تھے اور ایوبی جیسے بطل عظیم کی راہ تاک رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ صلاح
الدین کے والد نجم الدین نے ایک ایسی عورت سے شادی کی خواہش کی تھی کہ جس
سے اسے ایک بیٹا عطاہو اور وہ فاتح بیت المقدس بنے اور پھر اس کے ہاں صلاح
الدین کی پیدائش ہوئی جس نے بیت المقدس ایسے فتح کیا کہ انیسویں صدی تک
دوبارہ یہود و نصاریٰ اس کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
صلاح الدین ایوبی بیک وقت حکمران بھی تھا اور سپہ سالار بھی۔انھوں نے ایک
ایسے دور میں ہوش سنبھالا جب مسلمان ہر طرف سے کفر کے محراب میں گھرے ہوئے
تھے ۔ جب مشرق وسطیٰ کے حکمران صلیبیوں کو اپنی آغوش میں جگہ دے چکے تھے
اور جب غداری کا بازار گرم تھا ۔ ایسے میں وہ لوگ جن کے دلوں میں شمع ایمان
کی لو ابھی جگمگا رہی تھی کسی ایسے ہی معجزہ کے رونما ہونے کا انتظار کر
رہے تھے جو انہیں اوران کے ایمان کو جائے پناہ دے۔ یہ وہ وقت تھا جب قبلہ
اول ایک بار پھر نصاریٰ کی توجہ کا محور بن چکاتھا اور مسلمان پھر اس کی
آزادی کے لیے جد و جہد کر رہے تھے اور مالک کائنات کو یہ کام صلاح الدین سے
لینا ہی منظور تھا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایوبی کو اندرونی جنگ بھی لڑنا تھی کیوں کہ اس کی
اپنی قوم کے لوگ ہی غداروں کے ساتھ مل چکے تھے جو مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ
کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے تھے یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جس پر وقت پر
قابو پانا ایسے ہی ضروری تھا جنگل میں بھڑکتی ہوئی آگ پر قابو پانا ضروری
ہے۔ کیوں کہ ایک بار پھر نضر بن حارث کی سوچ کے حامل افراد ایکمشت ہو چکے
تھے جو اہل ایمان کو گمراہ کرنے کے لیے عورت کا سہارا لیتے تھے ۔ مسلمان
نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹانے کی تمام تر کوششیں زور و شور سے جاری تھیں۔
کمزور ایمان والے تیزی سے اس فتنے کا شکار ہو رہے تھے ۔ خود صلاح الدین
ایوبی کو اس فتنے کی آڑ میں سات بار قتل کرنے کی ناکام سی کوشش کی جا چکی
تھی۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کی مدد کے تمام تر انتطامات اپنے ذمے
لے رکھے تھے۔ کیوں کہ ان کی نیت خالص اور کوشش سچی تھی اور مقصد رضائے خدا
اور پرچم اسلام کی سربلندی تھا۔
ان کا ایک راز دار ہم نوا علی بن ابی سفیان تھا جو ہر وقت اس کو ساتھ رہتا
تھا۔ علی بن ابی سفیان کو خدا نے یہ صلاحیت دے رکھی تھی کہ وہ خبر رسانی و
خبر گیری بہت اچھی کرتا تھا۔ آج کل کی زبان میں اسے انٹیلی جینس کہا جاتا
ہے۔ اندر کی جنگ لڑنے میں ایوبی کے ساتھ اس کا بہت بڑا ہاتھ تھا بلکہ اگر
یوں کہا جا ئے کہ اندر کی جنگ اور باقی تمام امور علی بن ابی سفیان نے
سنبھالے تھے تو بے جا نہ ہوگا ۔ کیوں کہ صلاح الدین باہر کی جنگ لڑنے میں
مصروف تھے ۔ فاروق اعظمؓ کے بعد بیت المقدس کی فتح کا سہرا ایوبی کے سر
جاتا ہے۔ نہ صرف علی بن ابی سفیان بلکہ ایوبی کی پوری ٹیم خداد صلاحیتوں کی
مالک تھی امت اسلام کا درد رکھنے والی تھی اور خلوص دل کے ساتھ بغیر کسی
مفاد کے اپنی قوم کے لیے کام کرنے والی تھی ۔ صلاح الدین خود بھی غیرت مند
انسان تھے اور اس بات کے تحت وہ اپنی قوم کے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیا
کرتا تھا۔ انھوں نے کبھی مال جمع نہیں کیا تھاصدقہ و خیرات ایک طرف ایوبی
اپنا ذاتی مال بھی جہاد کی راہ میں جتنا ہو سکے لگاتے تھے۔ یہاں تک کہ حج
کرنا ان کی دیرینہ خواہش تھی مگر ان کے پاس حج کے لیے زاد راہ نہ تھا ۔
ایوبی کا نظریہ تھا کہ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں۔ جس روز امت محمدﷺ
نے اپنے آپ کو سرحدوں کا پابند کر لیا اس روز امت کا زوال شروع ہو جائے گا
اور سلطنت اسلامیہ کی سرحدیں سکڑنے لگیں گی۔4 مارچ 1139ء کو سلطان صلاح
الدین ایوبی اپنے فجر کی اذان کی صدا کی ساتھ رفیق اعلیٰ سے جاملے ۔ کہا
جاتا ہے کہ خلفائے راشدین کے بعد اگر قوم پر کوئی ضرب کاری پڑی ہے تو وہ
صلاح الدین ایوبی کے انتقال کی ہے ۔اس وقت امت مسلمہ پر غم کی جو گھٹا
چھائی وہ صرف اﷲ ہی جانتا ہے۔
آج کی نوجوان نسل اور موجودہ حکومت کے لیے صلاح الدین ایوبی کی سیرت و
کردار میں بہت سے پیغامات پنہاں ہیں.جس نے بیک وقت راہنمائی، سپہ سالاری
اور حکمرانی کے اصول سے دنیا کو آشنا کرایا۔ مگر افسوس ہے کہ آج غیر تو
ہمارے اسلاف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں مگر ہم غیروں کے اسلاف کے نقش قدم پر
چل رہے ہیں۔ آج ہمارے بچے کیا بلکہ نوجوان بھی ان فاتحین کے ناموں تک سے
ناآشنا ہیں۔مگر پھر بھی انہیں نصاب میں چنگیز خاں اور ایڈولف ہٹلر پڑھایا
جاتا ہے۔ اس سلسلے میں میں حکوت سے کچھ نہیں کہوں گی بلکہ والدین سے
درخواست کروں گی کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا بند وبست خود
کریں نہ کہ تعلیمی ادارو ں کو اس کا قصور وار ٹھہرائیں۔ اس لیے کہ تعلیمی
ادارے آپ کے اختیار میں نہیں لیکن بچے آپ کے اختیار میں ہیں۔ انہیں اپنی
تاریخ اور حقیقی ہیروز سے آگاہ کریں کہ ہم کن لوگوں کی نسل ہیں ۔ ہمارے
اسلاف کون ہیں اور انہوں نے کیا کیا عظیم کارنامے سر انجام دیے۔
|