وزیراعظم نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کےیوم پیدائش پر ۱۸۲
میٹر طویل مجسمہ قوم کے نام وقف کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے ایک میوزیم
(نمائش)اور ناظرین گیلری کا بھی افتتاح کیا جو ۱۵۳ میٹر کی اونچائی پر واقع
ہے اور اس میں بیک وقت ۲۰۰ سیاحوں کی گنجائش ہے۔ ان لوازمات سے تو ایسا
لگتا ہے گویا یہ ایک سیاحتی مرکز ہے لیکن وزیراعظم نے اسے قومی یکجہتی دن
سے منسوب کردیا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بڑی خاموشی اور آسانی سے
ہندوستان کے سارے راجاوں اور نوابوں کو ہندوستان کے اندر ضم کیا تھا لیکن
ان کا مجسمہ بنانے کے لیے بڑا پیچیدہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ اول تو سارے
ہندوستان سے اس کے لیے لوہا جمع کیا گیا جس کی مطلق ضرورت نہیں تھی ۔اس کے
بعد امبانی کی ایل اینڈ ٹی کو ۳ہزارکروڈ کا ٹھیکہ دیا گیا ۔ اس نے یہ کام
چین کی کمپنی کے حوالے کردیا۔ اس طرح میک ان انڈیا کا شیر چوہا بن کر چینی
بل میں گھس گیا۔
۳۱ اکتوبر کو منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ
مجسمہ آنے والی نسلوں کو سردار پٹیل کی ہمت، بہادری اور صلاحیت کی یاد
دلائے گا۔ وزیراعظم نے ملک کی وحدت اور سالمیت کو برقرار رکھنے اور انتشار
پھیلانے والی طاقتوں کو شکست دینے کے لئے اتحاد کی دوڑ کو ہری جھنڈی دکھاتے
ہوئے فرمایا سردار صاحب نے ہمیں جو ملک عطا کیا ہے، اس کاا تحاد اور سالمیت
سوا سو کروڑ اہل وطن کا فریضہ ہے۔ لیکن کیا اتحاد محض مجسمہ اور دوڑنے
لگانے سے قائم ہوجائے گا۔ یہ مجسمہ جب چین سے بن کر آیا تو گجرات میں
معصوم بچی کی عصمت دری کے سبب شمالی ہندوستان کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ
بنایا جارہا تھا اور وہ جان بچا کر بھاگ رہے تھے ۔ جب یہ مجسمہ نصب ہوگیا
تو آسام سے دلدوز خبریں آنے لگیں ۔ اتفاق سے ان دونوں صوبوں میں فی الحال
کمل کھلا ہوا ہے۔
آسام سے پہلی خبر تو یہ آئی کہ مشہور گلو کارشان نے گوہاٹی میں منعقدہ
موسیقی کی تقریب میں جیسے ہی بنگالی زبان میں نغمہ چھیڑا حاضرین نعرہ لگانے
لگے ’’یہ آسام ہے بنگال نہیں‘‘۔اس کے بعد مشتعل ہجوم نے اسٹیج اور شامیانے
میں توڑ پھوڑ مچادی اور پتھراؤ شروع کردیا۔ شان نے گزارش کی کہ اسے سیاست
سے نہ جوڑیں، کسی فنکار کے ساتھ ایسا نہ کریں لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ
اندر ہی اندر پلنے والی نفرت کا ایک معمولی اظہارتھا۔ اس کے اگلے دن تنسکیا
کے کھیر باڑی گاؤں میں ۵ بنگالیوں کو قتل کردیا گیا۔ دہشت گرد جب وہاں آئے
تووہ بے قصور لوگ دوکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ انہیں برہمپتر ندی کے کنارے
لے گئےاور قطار میں کھڑا کرکے ایک ۔ ایک کو گولی ماردی۔آسام کے وزیر اعلی
سروآنند سونے وال اور مغربی بنگال کی وزیر ممتا بنرجی نے اس سانحہ کی سخت
مذمت کرتے ہوئے اس قتل کو این آر سی سے جوڑ دیا۔
نیلی قتل عام کے لیےمشہور آسام میں اس طرح کاسانحہ نیا نہیں ہے۔ ۲۴ سال
قبل اسی تنسکیا میں فوج کے ذریعہ ۵ نوجوانوں کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک
کردیا گیا ۔ اتفاق سے اسی ہفتہ سابق میجر جنرل اے کے لال سمیت کرنل تھامس
میتھیو، آر ایس سبرین ،دلیپ سنگھ، کیپٹن جگدیو سنگھ، نائک البندر سنگھ اور
نائیک شویندر سنگھ کو فوجی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ فوجیوں نےاس
فرضی انکاؤنٹر کا الزام الفاکے سر تھوپ دیا تھا ۔ اس بار بھی الفا پر شک ہے
اس کا ایک آدمی حراست میں بھی لیا گیا ہےمگر وہ انکار کررہا ہے۔ امیت شاہ
کا غیر ملکیوں کو نکال باہر کرنے والا بیان اس آگ کو ہوا دے رہا ہے۔
بی جے پی کی معاون جماعت آسان گن پریشد نے این آر سی کے معاملے فرقہ
واریت کی مخالفت شروع کردی ہے ۔ اے جی پی چونکہ مرکز کے مجوزہ سٹیزن شپ بل
۲۰۱۶ کےخلاف ہےاس لیے وہ احتجاج کررہی ہے اوراتحاد توڑنے کی دھمکی بھی دے
رہی ہے۔۔ ان جماعتوں کے درمیان نزع کی وجہ مرکزی وزارت داخلہ کا حالیہ
حکمنامہ ہے جس کی رو سے ملک کی ۷ ریاستوں گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر،
راجستھان، اتر پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی کے داخلہ سکریٹریوں اور ضلع
مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ ۶ کے تحت
پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہندو اقلیتوں (ہندوؤں) کو شہریت
کا سرٹیفکیٹ جاری کر سکتے ہیں۔ اس سرٹیفکیٹ کے بعدیہ پناہ گزین ہندوستانی
شہری ہو جائیں گے۔ مرکزی حکومت کا یہ خاص انتظام ۲سال تک قابل قبول رہے گا۔
اس طرح حکومت ملک میں تقریباً تین لاکھ لوگوں کو شہریت دینے کا منصوبہ بنا
رہی ہے۔اے جی پی کو اندیشہ ہے کہ آگے چل کر بی جے پی اس منصوبہ کی توسیع
آسام میں بھی کرے گی اور ریاست میں مقیم بنگلہ دیشی ہندو پناہ گزینوں کو
شہریت عطا کر دے گی۔ آسام کے وزیر مالیات ہیمنت بسوا شرما کا کہنا ہے کہ
وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کا مجوزہ سٹیزن شپ بل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ
بل فی الحال جے پی سی کے پاس ہے جہاں سے اسے پارلیمنٹ میں بھیجا جائے گا۔
پارلیمنٹ میں ہی اس پر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل نے جو اتحاد قائم کیا تھا اس کو ہمارے سیاست داں
اپنے مفادات کی خاطر پارہ پارہ کررہے ہیں ۔ ایک طرف تفرقہ پھیلانے والے
اقدامات اور دوسری جانب وزیراعظم کی تقریر کے یہ کھوکھلے الفاظ کہ ’’ کثرت
میں وحدت ہمارے ملک کی خصوصیت ہے، لیکن جب تک اس کثرت کو ہم احترام اور عزت
نہیں دیں گےاپنے تنوع پر ہم فخر نہیں کریں گے۔ کثرت میں وحدت کی اہلیت کے
ساتھ اپنے آپ کو نہیں جوڑیں گے تو کثرت کے الفاظ ہمارے کسی کام نہیں آئیں
گے‘‘۔ وزیراعظم کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ جو باتیں
انہوں نے کہی ہیں خود ان کی جماعت اس پر کتنا عمل کرتی ہے مثلاً جب وہ کہتے
ہیں کہ ’’ ہم یہ بڑے ناز کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ہر پنتھ ، ہر
روایت ، ہر طور طریقے ، اس کو کسی نہ کسی شکل میں یہ بھارت اپنے آپ میں
سمیٹے ہوئے ہے۔ بولیاں متعدد ہیں، پہناوے متعدد ہیں، کھان پان کے طریقے
متعدد ہیں، ریت رواج الگ الگ ہیں، مستحکم ہیں اس کے باوجود بھی ملک کیلئے
ایک رہنا ، ملک کے لئے نیک رہنا، یہ ہم نے ہماری ثقافتی وراثت سے سیکھا
ہے‘‘۔ ہماری سیاسی جماعتیں اگر ان باتوں پر عمل پیرا ہوتیں تو اتحاد و
سالمیت کے لیے ۳ ہزار کروڈ روپئے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
|