کرناٹک ضمنی انتخاب :بی جے پی آئی سی یو میں داخل

کرناٹک میں بی جے پی کی کراری ہار پر انگریزی کا محاورہ ’ اختتا م کی ابتدا(beginning of end)‘ صادق آتا ہے اس لیے کہ بی جے پی کسی طرح مرتے پڑتے صرف شموگہ کی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوئی ۔ منڈیا اس کی تھی ہی نہیں مگر بیلاری جہاں سے ۱۹۹۹؁ میں سونیا گاندھی نے سشما سوراج کو شکست دی تھی وہاں وہ بری طرح ہار گئی۔ ۱۹۹۹؁ کے بعد سے مائنگ مافیا ریڈی برادران کے بی جے پی میں شمولیت سے یہ حلقۂ انتخاب جو بی جے پی کے قبضے میں گیا تو پھر واپس نہیں آیا۔ یہ وہی ریڈی برادران ہیں جنھوں نے نوٹ بندی کے دوران جبکہ عوام اے ٹی ایم کی قطار میں دم توڑ رہے تھے ہزاروں کروڈ خرچ کرکے اپنی بیٹی کی شادی کی تھی اور کمال بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبہ کے بڑے بی جے پی رہنماوں نے اس میں اپنی شرکت درج کرائی تھی۔ اس پارلیمانی انتخاب میں غریب عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرکے انتقام لے لیا۔کانگریس نے یہ سیٹ شموگہ کی مانند مرتے پڑتے نہیں بلکہ ۲ لاکھ اور ۴۳ کے فرق جیتی ہے۔ کانگریس نے جام کھنڈی اسمبلی سیٹ پربھی ۴۳ ہزار سے زیادہ ووٹ سے کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا کہ اسمبلی کے بعد بلدیاتی انتخابات میں اس کو حاصل ہونے والی کامیابی اتفاق نہیں تھا ۔ کانگریس کے سابق رکن اسمبلی کی موت کے سبب نشست خالی ہوئی تھی لیکن وہاں پنجہ آزمائی میں کمل کو ناکامی ملی اوروہ اپنی برتری برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا۔

جنتا دل نے جب کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملایا تو بی جے پی نے اسے ناپاک الحاق کا نام دیا۔ بی جے پی کا عجیب معاملہ ہے۔ نتیش کمار اگر مہاگٹھ بند ھن میں شامل ہوکر انتخاب لڑیں اور اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر این ڈی اے میں شامل ہوجائیں تب بھی وہ ایک پاکیزہ اتحاد کہلاتا ہے لیکن جے ڈی ایس آزادانہ انتخاب لڑ کر کانگریس کے ساتھ ہوجائے تو اسےناجائز تعلق قراردے دیا جاتا ہے۔ جنتا دل (ایس ) نے منڈیا میں ۳ لاکھ ۲۵ ہزار کے فرق سے کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا کہ بی جے پی جس اتحاد سے ناراض ہے عوام اس سے خوش ہیں ۔ نظام جمہوریت میں حرام و حلال یا جائز و ناجائز کا فیصلہ عوام کالانعام کرتے ہیں۔ رام نگرم کی نشست وزیراعلیٰ کمار سوامی کے استعفیٰ سے خالی ہوئی تھی۔ اس پر انہوں لالو کی مانند اپنی اہلیہ کو لڑا دیا ۔ انیتا کمار سوامی نے یہاں سے ایک لاکھ ۹ ہزار ووٹ سےزبردست کامیابی درج کرائی ۔

اسمبلی انتخاب میں عام طور سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا لیکن رام بھکت بی جے پی کے ساتھ رام نگرم میں ایک بہت بڑا لطیفہ ہوا۔ کانگریس نے جب اس حلقۂ انتخاب پر جے ڈی ایس کی حمایت کا فیصلہ کیا تو کانگریسی رہنما چندر شیکھر اس سے ناراض ہوکر بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ بی جے پی نے اپنی اصول پسندی کو طاق پر رکھ کر کمال ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین دن قبل پارٹی میں شامل ہونے والے چندر شیکھر کو ٹکٹ دے دیا۔ اس سے امیت شاہ کی بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن چانکیہ مہاراج کا یہ داوں الٹا پڑا۔ مقامی لوگوں نے اپنی پارٹی کے صدر کا فیصلہ ان کے منہ پر دے مارا۔ چندر شیکھر کے مطابق بی جے پی کے کسی رہنما نے ان سے رابطہ نہیں کیا ۔ انہوں یدورپاّ سے بات کرنے کوشش کی تو اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ اس رویہ سے بد دل ہوکر چندر شیکھر نے اپنی امیدواری واپس لے لی اور کانگریس میں لوٹ گئے۔ سنگھ پریوار اپنے کیڈر کی تعریف و توصیف سے نہیں تھکتا ۔ شاہ جی ہر بوتھ اور بلاک کی سطح پر کارکنان کی فوج کھڑی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن چندر شیکھر نےان تمام گیدڑ بھپکیوں کی ہوا نکال دی اور بی جے پی کی شکست نے کمل کی پتی پتی بکھیر دی ۔

سب سے دلچسپ مقابلہ شموگہ میں تھا یہ نشست بی ایس یدورپاّ کے استعفیٰ سے خالی ہوئی تھی اور وہاں سے انہوں نے اپنے بیٹے راگھویندر کو ٹکٹ دلوایا۔ ان کے مقابلے جے ڈی ایس نے سابق وزیراعلیٰ گنڈو راو کے بیٹے مدھو بنگا رپاّ اور جے ڈی یو جو بہار میں بی جے پی کے ساتھ حکومت کررہی ہے نے سابق وزیر اعلیٰ جے ایچ پٹیل کے فرزند ارجمند مہما پٹیل کو میدان میں اتارا۔ اس سے پتہ چلتا ہے جے ڈی یو اور بی جے پی تعلقات کتنے کمزور ہیں ۔ اس سے قبل یدورپا نےشموگہ سے ۳ لاکھ اور چالیس ہزار کے فرق سے انتخاب جیتا تھا لیکن اس بار ان کا بیٹا صرف ۵۲ ہزار ووٹ کے فرق سے کامیابی صاصل کرسکا۔ اس فتح کے بطن میں ایک شکست کا پیغام ہے۔ جن لوگوں نے یہ سوچ کر مدھو بنگارپاّ کو ووٹ نہیں دیا تھا کہ ہارنے والے کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ اگلی بار اپنا ووٹ ڈالنے سے پہلے ٹھہر کر سوچیں گے یعنی بی جے پی کے لیے یہ گڑھ بچانا مشکل ہوجائے گا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جنوبی ہندوستان میں قدم جمانے کا کارنامہ یدورپاّ نے انجام دیا لیکن وہی اب اس کے قدم اکھاڑنے کا فرض ادا کررہے ہیں۔ بی جے پی پانچ باتوں میں اپنے آپ کو کانگریس سے ممتاز ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اول تو نظم و ضبط کا معاملہ۔ یدورپاّ کو جب بی جے پی نے وزارت اعلیٰ کی کرسی سے ہٹایا تو انہوں نے بغاوت کردی اور کرناٹک جنتا پارٹی بناکر بی جے پی بہت نقصان پہنچایا۔ پچھلی بار کانگریس کو اقتدار میں لانے کا سہرا دراصل یدورپا کے سربندھتا ہے جنھوں نے بی جے پی کے ووٹ کا تناسب ۲۱ سے ۸ پر پہنچا دیا تھا ۔ اس بے ضابطگی کے باوجود بی جے پی اپنے تھوک کو چاٹ کر ۲۰۱۴؁ سے قبل یدورپاّ کو پارٹی میں شامل کرلیا اور انتخاب کی کمان ان کے ہاتھوں میں تھما دی۔اسطرح بدعنوانی سے عدم مصالحت کا دعویٰ بھی خاک میں مل گیا۔ ۲۰۱۸؁ کے اسمبلی انتخاب میں یدورپاّ نے پھر سے اسے ۱۸ فیصد تک پہنچا کر سب سے زیادہ ارکان کو کامیاب کرایا لیکن وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کرسکے اس طرح اپنے ساتھ امیت شاہ کی عزت بھی نیلام کر دی ۔ یدورپاّ کے معاملے میں بی جے پی نے اپنا عمر والا اصول بھی توڑا ۔ اڈوانی اور جوشی وغیرہ کو ۷۵ سال کے سبب وزارت سے محروم کیا گیا لیکن یدورپاّ کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف دلوا کر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔

کانگریس پر بی جے پی کا سب سے بڑا الزام وراثتی اقتدار کا ہے ۔ کرناٹک میں اس بار یہ معاملہ زور و شور سے چلا۔ رام نگرم حلقہ انتخاب پر کمار سوامی نے استعفیٰ دیا تو وہاں سے الیکشن لڑنے کے لیے انہیں اپنی دھرم پتنی انیتا کمار سوامی سے بہتر امیدوار میسر نہیں آیا ۔وہ خود ایچ ڈی دیو ےگوڑا کی وراثت چلا رہے ہیں ۔ جنتا دل یو کوشموگہ سے انتخاب لڑنے کے لیے سابق وزیراعلیٰ پٹیل کا بیٹا اور جے ڈی ایس کو سابق وزیراعلیٰ بنگا رپا کا فرزند ملا۔ بیلاری کے اندر بی جے پی رکن پارلیمان شری راملو نے استعفیٰ دیا تو ان کو بھی اپنی بہن شانتی ہی مناسب ترین امیدوار نظر آئیں۔ بی جے پی نے شموگہ سے یدورپاّ کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر ثابت کردیا کہ خاندانی راج کے معاملے میں وہ کانگریس سے پیچھے نہیں ہے بلکہ کرناٹک کی حد تک تو دو قدم آگے ہے۔

یہ ضمنی انتخاب ایک ایسے وقت میں ہوا جب سبری مالا لو لے کر بی جے پی اس مغالطے میں ہے کہ اس کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کا عتراف بی جے پی کیرالا کے صوبائی صدر نے بھی کیا۔ سبری مالا کے بھکت کر الا کے علاوہ دیگر پڑوسی صوبوں میں بھی ہے لیکن انہوں نے بی جے پی پر نظر کرم نہیں کی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رام مندر کو رائے دہندگان اس بار کتنی اہمیت دیں گے ۔ بستر مرگ اگر کسی جسد خاکی کے ناخون نیلے پڑنے لگیں تو اسے موت قریب ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کرناٹک ضمنی کے نتائج نے بی جے پی کے نیلے ناخون کی مانند ہیں۔ اب دیکھنا ہے یہ ہے مدھیہ پردیش اور راجستھان کا ہارٹ اٹیک کتنا تگڑا ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مودی سرکار کی سانسیں اکھڑنے لگی ہیں ۔آئی سی یو سے مریض واپ صحت یاب ہوکر آئے گا یا پرلوک سدھارے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.