7 اگست 1958ء کا سورج طلوع ہونے کو تھا ۔ اس کی کرنوں سے
لکشمی پور کے جھیل جیسے تالاب کی سطح پر قوس قزح کے رنگ ابھرنے والے تھے اس
سے ذرا فاصلے پر دور دور تک سپاہیوں کے لاشے بکھرے ہوئے دکھائی دے رہے تھے
۔ خون میں لت پت انسانی لاشے دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ شاید آفتاب نے طلوع
ہوتے وقت سرخی انہیں شہیدوں کے لہو سے مستعار لی ہوگی ۔ یہ ان شہیدوں کالہو
تھا جن کی وجہ سے پاکستانی جھنڈے کی صورت میں ایک اونچے مقام پر لہرا رہا
تھا ۔
کمپنی کمانڈر میں ابھی زندگی کی رمق باقی تھی انہیں سٹریچر پر ڈال کر قریبی
میڈیکل پوسٹ لے جایاجارہا تھا ان کی نظریں پاکستانی پرچم پر جمی ہوئی تھی
کچھ دیر قبل اسی مقام پر بھارت کا پرچم لہرا رہا تھا لیکن یہ سرزمین
پاکستان کا ہی حصہ تھی اور یہاں صرف سبز ہلالی پرچم ہی سجتا تھا۔ کمپنی
کمانڈر اپنے زخموں کی شدت بھول چکا تھا کیونکہ اس نے اپنے وطن کا ایک خطہ
دشمن کے ناپاک قبضے سے آزاد کروالیا تھا۔ دشمن کی مشین گن سے چلائی جانے
والی گولیاں ان کے بدن میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن سانس کی ڈوری ابھی قائم
تھی وہ اب تک پرسکون تھے یہ عظیم شخص پاک فوج کا غیور ٗ بہادر اور نڈر
آفیسر میجر چوہدری طفیل محمد تھا۔ جسے گزشتہ روز ان کے آفیسر بریگیڈئر صاحب
داد نے لکشمی پور کو آزاد کروانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ میجر طفیل محمداس
خوشگوار فرض کو انجام دینے کے لیے پہلے ہی بے تاب تھے لیکن انہیں یہ بھی
حکم ملا کہ کسی صورت بھارت کی سرحد میں داخل نہیں ہونا ۔ نیز مختلف مصلحتوں
کے پیش نظر اور بھی شرائط ان پر عائد کرنی پڑیں ۔ جب کہ لکشمی پور کی سرحدی
چوکی دشمن کے قبضے سے واپس لینا قریب قریب ناممکن نظر آتا تھالیکن میجر
طفیل محمد نے اپنے وطن کی خاطر حالات کے چیلنج کو قبول کرلیا اب یہ سوچ کر
ان کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے کہ اﷲ تعالی نے اس ذمہ داری کو پوراکرنے کی
توفیق عطا فرمائی ۔ان کے جذبات نے جوش مارا زخمی بدن کی رہی سہی قوت مجتمع
کرکے ہاتھوں کو بلند کیا اور سٹریچر پر لیٹے لیٹے اپنے قومی پرچم کو سلامی
دی اور پھر وہ اس عمل کو بار بار دہراتے چلے گئے ۔
ان کے جوان اسٹریچر اٹھائے چپ چاپ بڑھتے چلے جارہے تھے کچھ سپاہی رو بھی
رہے تھے ۔ یہ سپاہی وہ غازی اور پراسرار بندے تھے جن کے آگے پہاڑ اور آہن
بھی پگھل جاتے ہیں لیکن اس وقت ان کے اپنے دل پگھلے جارہے تھے ۔حوصلہ منتشر
ہوتا جارہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسٹریچر پر جس کمپنی کمانڈر کازخمی جسم
وہ اٹھائے ہوئے تھے وہ عام زندگی میں نہایت شفیق انسان تھے ہر طرح سے ان کا
خیال رکھتے اور اپنے ماتحت افسروں اور جوانوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے
تھے ۔
میجر طفیل محمد کو جلیل پور میڈکل پوسٹ کی طرف لے جایاگیا پھر اسپیشل ٹرین
کے ذریعے کومیلا کے کمبائنڈ ملٹر ی ہسپتال پہنچادیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے
حیرت کے ساتھ یہ منظر دیکھاکہ میجر صاحب اس قدر زخمی ہونے اور خون بہہ جانے
کے باوجود نہایت خوش و خرم نظر آرہے ہیں بڑی بڑی آنکھیں ٗ کشادہ پیشانی
اوسط درجے کا قدر ٗ چھریرا بدن بازو گول ٗ گلائیاں چوڑی ٗ سینہ چوڑا اور
جسم میں بے پناہ قوت جس کے آخری آثار اب بھی اپنی موجودگی کااحساس دلارہے
تھے ۔
سی ایم ایچ کومیلاکے رجسٹر میں دن کے ساڑھے دس بجے زخم خوردہ میجر صاحب
کانام "میجر طفیل محمد" درج کیا گیا ۔ کومیلا سی ایم ایچ میں ڈاکٹر کرنل
عبدالمجید اور ڈاکٹر میجر محمد یونس دیوان آپ کے گرد جمع تھے۔ معائنے کے
بعد فوری آپریشن کا فیصلہ کیاگیا تاکہ شدید زخمی میجر صاحب کی جان بچائی
جاسکے ۔ آپریشن سے پہلے جب آپ سے وصیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے
انگریزی میں اتناکہا کہ از راہ کرم میرے کمانڈر سے یہ کہہ دیجیئے کہ میں نے
اپنا فرض اور مشن پورا کرلیا ہے۔ جس کے لیے مجھے حکم دیاگیا تھا ہم لکشمی
پور کے اس سرحد ی علاقے پر پاکستانی جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
جہاں بھارت نے قبضہ کرلیاتھا۔ اب میری روح کو سکون ہے کیونکہ میں نے اپنے
سنئیر کے احکامات کی تعمیل کر دی ہے۔ مزید برآں میں تمام افسروں اور جوانوں
کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قوم اور ارض وطن کی حفاظت کے لیے جان دینے سے بھی
گریز نہ کریں۔
آپریشن کے دوران معلوم ہوا کہ آپ کے جسم میں جو چار گولیاں پیوست تھیں
انہوں نے انتڑیوں میں بھی سوراخ کردیئے تھے۔ یہ واقعی پریشان کن صورت حال
تھی اب میجر طفیل محمد کے زندہ بچنے کی امید دم توڑنے لگی ۔ بہرکیف گولیاں
جسم سے نکال کر ٹانکے لگا دیئے گئے لیکن گھڑی کی سوئیاں دن کے اڑھائی بجا
رہی تھیں کہ میجر طفیل محمد کی حرکت قلب بند ہوگئی اور وہ اپنے خالق حقیقی
سے جاملے ۔
بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے ہیں
میجر طفیل محمد مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے نواحی قصبے سارو باد میں 22
جولائی 1914ء کو پیدا ہوئے۔ جہاں آپ کے والد ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔
آپ کانام آپ کے والد ماجد چودھری موج الدین کے مرشد عبدالحمید شاہ صاحب کے
مشورے کے مطابق "طفیل محمد"رکھا گیا۔ اس خاندان کے کئی اور افراد بھی فوج
میں خدمات انجام دے رہے تھے ۔قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان ہجرت کرکے
گگو منڈی کے نواحی گاؤں چک EB-253 آگیا ۔ابتدائی تعلیم موضع ساروباد جبکہ
میٹرک کاامتحان موضع شام چوراسی کے سکول سے امتیازی حیثیت سے پاس کیامزید
تعلیم گورنمنٹ کالج جالندھر سے حاصل کرکے 22 جولائی 1932ء کو 18 برس کی عمر
میں آپ ایک سپاہی کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہوگئے ۔1940ء میں آپ کوصوبیدار
کے عہدے پر ترقی دے دی گئی 1943 ء میں آپ نے انڈین ملٹری اکیڈیمی ڈیرہ دون
سے کمیشن حاصل کیا۔ 13 جون 1943ء کو آپ سیکنڈ لیفٹیننٹ بن گئے ۔11 نومبر
1944ء کو آپ کو ترقی دے کر فل لیفٹیننٹ بنا دیاگیا 28 مارچ 1945ء کو آپ کو
ٹریننگ کیپٹن بنادیاگیا اور 1947 ء کو آپ میجر کے عہدے پر فائز ہوگئے ۔ اس
دوران آپ نے بہت سے فوجی کورسز بھی کیے ۔ سمال آرمز اسکول ساگر میں آپ کو
ایک کورس کے لیے بھیجا گیا پھر اسی سکول میں آپ کو استاد کی حیثیت سے
تعینات کردیاگیا بطور انسٹرکٹر آپ نے ٹریننگ کے اعلی معیاری طریقے رائج کیے
جنہیں طفیل میتھڈ آف ٹریننگ کے نام سے فوج میں یاد کیاجاتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اپریل 1948 میں آپ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین کے
کمپنی کمانڈر مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد آپ کی گلگت اسکاؤٹس کے ذمے سرحدی
دفاع کااہم ترین فریضہ سونپاگیا آپ پہلے پاکستانی افسر تھے جنہیں کمانڈنٹ
گلگت اسکاؤٹس مقررکیاگیا۔ بعد ازاں انفنٹری سکول کوئٹہ سے کورس مکمل کرنے
کے بعد انفنیٹری ویپئن کے چیف انسٹرکٹر بنادیئے گئے ۔
جون 1958 ء میں آپ کو ایسٹ پاکستان رائفلز( مشرقی پاکستا ن ) میں تعینات
کردیاگیا ۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کاہیڈکوارٹر اکھوڑہ ضلع کومیلا میں تھا۔آپ
یہاں ونگ کمانڈر مقرر ہوئے ۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کا پرانا نام ایسٹرن
فرنٹیئر رائفلزتھا قیام پاکستان سے لے کر اس کی عسکری تنظیم نے بے مثال اور
گرانقدر خدمات انجام دی تھیں ۔ اس کے ذمے تین بڑے کام تھے ۔
(1) سرحدوں کی حفاظت کرنا
(2) سمگلنگ کی روک تھام
(3) اندرون ملک امن و امان قائم رکھنا
خدا کے فضل وکرم سے یہ تینوں کام ایسٹ پاکستان رائفلز نے نہایت ذمہ داری سے
انجام دیئے ۔ سمگلنگ رک جانے کی وجہ سے بھارت کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ۔
اس نے سرحدی تنازعہ کھڑا کردیا اور سرحدی جھڑپوں کاکبھی نہ ختم ہونے والا
سلسلہ شروع ہوگیا ۔ مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوااور کئی مسلمان شہید
بھی ہوئے ۔سرحدی جھگڑوں کو طے کرنے کے لیے آسام اور مشرقی پاکستان کے چیف
سیکرٹریوں کے علاوہ وزراتی سطح پر کئی کانفرنسیں منعقد ہوئیں مگر ان
میٹنگوں کاکوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا ۔ جولائی 1958ء میں بریگیڈئر صاحب
داد نے ایسٹ پاکستان رائفلز کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالا ۔15 جولائی
1958ء میں بھارتی حکومت نے ضلع کچھار کے سرحدی علاقے میں فوج متعین کردی
اور تمام اہم مورچے فوج نے سنبھال لیے کچھ نئے مورچے اور خندقیں بھی از سر
نو تعمیر کرلیں ۔ "سونا تیلا"کی پاکستانی سرحد میں چند بھارتی سورماگھس آئے
جب مشرقی پاکستان کی حکومت نے ان مداخلت کاروں کو واپس بلانے کے لیے بھارتی
حکومت کو کہا تو اس نے 20 جولائی 1958ء کو اپنی باقاعدہ فوج جو جدید ترین
اسلحے سے تھی ٗ مشرقی پاکستان کی سرحد پر جمع کردی بلکہ قرب و جوار کی
پہاڑیوں پر توپیں بھی نصب کردیں۔ اس طرح حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ
گئے ۔ احتجاج کے باوجود راست اقدام نہ کیا ۔درحقیقت یہ ایک سوچی سمجھی سازش
تھی جس کے تحت بھارتی فوج 2 اگست 1958ء کو پاکستانی علاقے "برہمن باڑیہ" کے
ایک سرحدی گاؤں لکشمی پور میں گھس آئی اور زبردستی قبضہ کرلیالیکن بھارت
اور پاکستان کے اعلی افسروں کے باہمی تصفیہ کی بدولت یہ تنازعہ وقتی طور پر
ختم ہوگیا لکشمی پور گاؤں میں ایک مالدار شرپسند ہندو "دھرانی سرکار "
رہائش پذیر تھا اس کو لکشمی پور سے بھارتی پسپائی پسندنہ آئی تو وہ خودہجرت
کرکے بھارت کے زیر قبضہ علاقے اگر تلہ چلاگیا۔ دھرانی سرکار بذات خود
سمگلروں کے گروہ کا سرغنہ تھااور اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کردینا
چاہتا تھا جبکہ اس کے تمام کارندوں کو ایک ایک کرکے ایسٹ پاکستان رائفلز کے
جوانوں نے گرفتارکرلیا تھا جس پر وہ سخت پریشان تھا اس نے لکشمی پور کے
ہندووں پر مسلمانوں کے مظالم کی فرضی اورمن گھڑت کہانیاں سنا کر بھارتی
حکام کومشتعل کیا اور خود چپکے سے مشرقی پاکستان کی سرحد عبور کرکے لکشمی
پور آگیا اور گاؤں کے ہندووں کو ساتھ ملا کر لکشمی پور پر بھارتی قبضے کی
تدابیر کرنے لگا ۔ بالآخر دھرانی سرکار کی کوششیں رنگ لے آئیں ۔ میجر دیو
برہمن کی قیادت میں ایک سو فوجی جوانوں کا دستہ لکشمی پور میں گھس آیا
۔گاؤں میں موجود مسلمانوں کو شدید زود کوب کیا گولیاں چلائیں اور گاؤں پر
قبضہ کرکے وہاں اپنے خیمے گاڑ کر مورچے بنا لیے اور تین چوکیاں بھی قائم
کرلیں ۔ہندووں اور بھارتی فوج نے باہم مل کر اس گاؤں میں مسلمانوں کی
آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی مسلمانوں کوگاؤں کے تالاب کا پانی
استعمال کرنے سے بھی روک دیاگیا اور مشہور یہ کردیاگیا کہ باؤنڈری سروے
والوں نے رشوت لے کر یہ علاقہ پاکستان کو دے دیا تھا اب یہ بھارت میں شامل
ہوگیا ہے اور اس گاؤں میں رہنے والے لوگ بھی بھارتی شہری ہیں اگر کسی نے
پاکستانیوں کی مدد کی یا مخبری کی تو ان کو جان سے ماردیاجائے گا۔ گاؤں میں
اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے والے مسلمان سخت پریشان ہوئے او رانہوں نے
پاکستانی حکام سے اس بھارتی رویے کی شکایت کی ۔ گورنر مشرقی پاکستان میجر
جنرل محمدامراؤ خان سمگلروں اور شرپسند ہندو عناصر کی ناپاک حرکتوں سے پہلے
ہی تنگ تھے لکشمی پور پر بھارتی قبضے کی خبر نے ان کے ارادوں کو طوفان میں
بدل دیا۔ ہندؤوں کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و ستم نے بھی جلتی پر تیل
کاکام کیا ۔ گورنر مشرقی پاکستان یہ خبر سن کر چونک پڑے ۔ انہوں ایسٹ
پاکستان رائفلز کے ڈائریکٹر جنرل کو یہ علاقہ ہر صورت واپس لینے کا ٹاسک
دیا ۔
بریگیڈئر صاحب داد خان کی دور بین نگاہوں نے اس مشکل ترین کام کے لیے موزوں
اور مناسب ترین آفیسر میجر طفیل محمد کا انتخاب کیا۔ میجر طفیل محمد نے
اپنے انتخاب کے بعد اپنی مرضی کے جوان منتخب کیے اور جوابی حملے کا منصوبہ
تیار کرکے بریگیڈئر صاحب داد سے رسمی منظوری حاصل کی ۔
لکشمی پور سے تین میل دور جلیل پور نامی گاؤں میں ایک میڈیکل پوسٹ قائم کی
گئی ۔ بھارتی فوج نے لکشمی پور کی ایک اہم ٹیکری پر مورچہ بنایا ہوا تھا اس
ٹیلے کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا ۔ ٹیلے تک صرف ایک ہی راستہ جاتا تھا
جس پر انہوں نے ہلکی مشین گن نصب کررکھی تھی راستے کے دونوں جانب باڑ لگا
کر بند کردیاگیا تھا ٹیلے پر قابض ہونے کی وجہ سے بھارتی فوجی پاکستانی
جوانوں کی نقل و حرکت بخوبی دیکھ سکتے تھے علاوہ ازیں ہلکی اور بھاری مشین
گنیں بھی ان کی حفاظت کے لیے موجود تھیں ۔
میجر طفیل محمد کامنصوبہ یہ تھا کہ دو مختلف جگہوں سے ایک ایک پلاٹون کے
ذریعے حملہ کیاجائے۔ تیسری پلاٹوں کی کمان خود میجر طفیل محمد نے سنبھال لی
اور جمعدار محمد اعظم کو اپنا نائب مقرر کیا۔ سارے معرکے کی کامیابی
کاانحصار اس پلاٹون کی کاروائی پر تھا۔
6 اگست 1958ء کی شام میجر طفیل محمد نے حملے سے متعلق ہدایات جاری کیں ہر
ایک جانباز کو اس کا کام سمجھادیا۔حملے کی رات بہت زیادہ تاریک ٗ گھناؤنی
اور خطرناک تھی ۔ ہوکا عالم تھا جب رات کے تین بج گئے تونمبر ون ونگ کی اے
کمپنی کفن بردوش حملے کے لیے تیار کھڑی تھی تمام جوان اپنے سالار کے گرد
جمع ہوگئے ۔ آپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا-:
"آج جو معرکہ ہمیں درپیش ہے یہ کوئی مشکل نہیں مجھے یقین ہے کہ خدا کے فضل
و کرم سے ہم اس میں کامیابی حاصل کرکے ہی لوٹیں گے ۔آج ہمیں یہ ثابت کرنا
ہے کہ ہم پر جو اعتماد کیاگیا ہے ہم اس کے اہل ہیں اگر ملک کو قربانی کی
ضرورت ہے تو سب سے پہلے میں اپنی جان پیش کرتا ہوں ۔ آپ اﷲ تعالی اور اپنے
آپ پر بھروسہ رکھیں خدا ہماری ضرور مدد کرے گا اورکامیابی سے ہمکنار بھی
کرے گا ۔"
رات کے ساڑھے تین بج چکے تھے نمبر تھری پلاٹون میجر طفیل محمد کے زیر قیادت
روانہ ہوگئی اسے بھارتی فوج کی پچھلی جانب سے حملہ آور ہونا تھا ہر ایک
مجاہد پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے ہر طرف
شہر خموشاں جیسی خاموشی تھی البتہ کبھی کبھی بھارتی فوجیوں کے کھانسنے کی
آوازیں سنائی دے رہی تھیں یا ہوا کے چلنے سے بانس کے درختوں کی شاخوں اور
پتوں کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی ہر سو موت اپنے بازو پھیلائے کھڑی تھی۔
ان پر سکوت لمحات میں مٹھی بھر پاکستانی مجاہد شوق شہادت سے سرشار دیوانہ
وار آگے بڑھ رہے تھے میجر طفیل محمد ہر جوان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔
پاکستانی فوجی جوانوں کے حوصلے پہلے ہی بہت بلند تھے ۔یوں محسوس ہورہا تھا
کہ دشمن کو حملے کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی جیسے ہی میجر طفیل محمدنے
جمعدار اعظم خان کو حملہ آور ہونے کا حکم دیا تو بھارتی مورچوں کی جانب سے
مشین گنوں نے موت کی آگ برسانی شروع کردی ۔ اب کسی حجاب اور پراسراریت کی
گنجائش نہ تھی دونوں جانب سے زبردست فائرنگ کا تبادلہ ہورہا تھا۔ جیسے ہی
میجر طفیل محمد نے اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نعرہ حیدری بلند کیا
تو یوں محسوس ہوا جیسے زمین تھرتھرانے لگی ہے اس نعرے نے ہمارے جوانوں
حوصلے جوان اور بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست کردیئے ۔ میجر طفیل محمد جعدار
محمداعظم کے علاوہ ایک جوان کولے کر آگے بڑھے جب دس قدم کا فاصلہ رہ گیا تو
دشمن کی ایک گولی آپ کے پیٹ میں آلگی پھر یکے بعد دیگرے دو مزید گولیاں
سینے میں اتر گئیں۔ اس کے باوجود بھی آپ ثابت قدم رہے اور آپ کے پائے
استقامت میں ذرا بھی لغزش پیدا نہ ہوئی ۔ ممولوں پر شہباز کی طرح وہ جھپٹتے
رہے ۔ ایک ہاتھ زخمی سینے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے ایک دستی بم نکال کر
ایسا نا پ تول کر پھینکا کہ دشمن کی مشین گن اور اس کے عملے کا مکمل طور پر
صفایا ہوگیا ۔ آپ پیٹ کے بل آگے بڑھتے اور جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے ۔
اسی اثنا میں دشمن کی دوسری مشین گین نے جو پیچھے آڑ میں نصب تھی گولیوں کی
آگ برسانی شروع کردی اس کی ایک گولی جمعدار محمداعظم کو لگی اس کے زخم اتنے
کاری اور مہلک ثابت ہوئے کہ وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ میجر طفیل محمد
کے جسم سے کافی خون بہہ چکا تھا اﷲ تعالی نے انہیں بلا کا حوصلہ ٗ طاقت اور
استقامت بخشی تھی کہ اتنا خون بہنے کے باوجود وہ مشین گن پر باز کی مانند
جھپٹے اور ہینڈ گرنیڈ پھینک کر اسے بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا ۔ میجر
طفیل محمد نے اسی حالت میں اپنے جانباز کو للکارتے ہوئے ان کے حوصلے بڑھائے
ان میں بجلی کی سی تیزی آچکی تھی۔ وہ بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر ٹوٹ
رہے تھے ۔ دست بدست لڑائی شروع ہوچکی تھی ۔ بھارتی سپاہی مارکھا کر دم دبا
کر میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے اب دشمن کی دوسری پوسٹ پر حملہ ہوا ۔ اسی
اثنا میں تری پور پولیس فورس کے کمانڈر میجر دیو برہمن پستول ہاتھ میں لیے
اپنے خیمے سے باہر نکلا ۔ زیادہ خون بہنے کی وجہ سے میجر طفیل نڈھال ہوچکے
تھے میجر برہمن آپ کی طرف آرہا تھا آپ نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہ سکے
اسی دوران ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک جوان کی نظر میجر برہمن پر پڑی اس کے
دل میں اسے جہنم رسید کرنے کا خیال آیا لیکن اسے پتہ نہ تھا کہ میجر برہمن
کے ہاتھ میں پستول بھی ہے ۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں میجر طفیل نے اپنے
جوان کی جان بچانے کے لیے اپنی ٹانگ میں الجھا کر میجر برہمن کو زمین پر
گرا دیا۔ اپنی فولادی ٹوپی سے ایسی ضرب لگائی کہ وہ نڈھال ہوکر اپنی سدھ
بدھ کھو بیٹھا ۔کچھ دیر بعد بھارتی میجر اٹھا اور وہی فولادی ٹوپی میجر
طفیل کے سر پر دے ماری جس سے آپ کے ماتھے پر ایک اور زخم لگ گیا ۔ اسی اثنا
میں ایسٹ پاکستان رائفلز کاایک جوان بھارتی میجر برہمن کو مارنے کے لیے
نشانہ لے چکا تھا لیکن میجر طفیل نے اسے روک دیا چنانچہ میجر برہمن کوقیدی
بنالیاگیا ۔ دشمن بزدلی دکھاکر پسپا ہوچکا تھا اسے کافی جانی و مالی نقصان
پہنچ تھا جیسے ہی پاک فوج کے جوان اپنے قائد میجر طفیل محمدکے پاس پہنچے تو
خون میں شرابور دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن میجر طفیل محمد
انہیں کامیابی کی نوید سناکر صبر کی تلقین کررہے تھے ہمت کرکے کھڑے ہونے کی
کوشش کی لیکن زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے نڈھال ہوکرگر پڑے ۔ اسی دوران
ایک اعلی افسر وہاں پہنچے تو آپ نے آخری بار ہمت کی اور انہیں سلیوٹ کرتے
ہوئے کہا سر میں نے اپنا فرض پوراکردیاہے ۔
اب لکشمی پور گاؤں پر بھارتی ترنگے کی بجائے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم
لہرا رہا تھا یہ 7 اگست 1958 ء کی روشن صبح تھی ۔ حکومت پاکستان نے میجر
طفیل محمد شہید کی بے مثال بہادری اور جانثاری پر پاکستان کا سب سے بڑا
اعزاز نشان حیدر عطا کیا جسے حاصل کرنے والوں میں آپ کا نمبر دوسرا تھا ۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نشان حیدر کا اعزاز حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی
نسبت ٗ بہادری اور جفاکشی کی علامت تصور کیاجاتا ہے ۔جو انتہائی پر خطر
حالات میں اپنی جان پر کھیل کر ملک و ملت کے لیے کوئی عظیم کارنامہ سرانجام
دینے والوں کو دیاجاتا ہے ۔یہ اعزاز اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے ایما پر
خدمات کے اعتراف میں دیاجاتا ہے لیکن جو مرتبہ شہدائے اسلام کو اﷲ تعالی کے
ہاں ملے گا اس کا تو تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔پاک فوج کے افسر اور جوانوں
کے جذبوں کو یہی بات تقویت دیتی ہے جنگ کرتے ہوئے زندہ بچ گئے تو غازی ٗاگر
شہید ہوگئے تو ہمیشہ زندہ رہنے کا اعزاز مل جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں خود اﷲ
تعالی فرماتا ہے کہ اﷲ کی راہ میں مرنے والے شہید ہیں اور شہیدکو کبھی موت
نہیں آتی وہ تو زندہ ہیں لیکن ان کی زندگی کا شعور ہر کوئی نہیں کرسکتا ۔ |