ظرافت انوار
اس دنیائے فانی میں انسان پر خوشی وغمی ،فرحت و رنج، شادمانی و غم ،سرور و
بے کیفی، خوشحالی و عسرت، صحت و مرض،غناء و فقر،انبساط و انقباض،سختی و
نرمی راحت و بے آرامی، اور خلوت وجلوت الغرض ہر طرح کی حالت وکیفیت طاری
ہوتی ہے۔ بعض اوقات حالات اتنے دگرگوں اور ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں کہ
کمزوردل افراد ایسے میں شکستہ دل اور کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں اور یہاں تک
کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ "جب گزر کی نہ ہو صورت توگزرجانا ہی بہتر ہے"
لیکن آپ کے چہرے پرایسے حالات میں بھی اکثر مسکراہٹ سجی رہتی ہے ۔ زندگی
میں آپ خواہ کتنی ہی دشواریوں اور مصائب کا سامنا کررہے ہوں لیکن
دوسروںمسکراتے چہرے ہی سے ملنا آپ کا وصف ہے۔
حوادث میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے دشواریوں میں اشک برسانا نہیں آتا
آپ خوش طبع اور ظرافت پسند ہیں ۔آپ ظرافت اوردل آزاری کے فرق سے بحسن وخوبی
آگاہ ہیں ۔ سادہ لفظوں میں اگر کہاجائے کہ آپ طنز کی بجائے مزاح کرتے ہیں
جس سے کسی کے جذبات مجروح ہونے کے بجائے ایک خوشگواریت کا احساس دل میں
پیداہوتاہے۔آپ اپنی مسکراہٹ کے لئے دوسروں کوتکلیف نہیں دیتے بلکہ آپ کی
ظرافت سے پوری محفل زعفران زار ہوجاتی ہے۔آپ کے ظریفانہ واقعات سے جامعہ کی
تاریخ بھری ہوئی ہے۔
1۔ ایک دفعہ جغرافیہ کے موضوع پر ایک خصوصی فورم کا انعقاد کیاگیا جس میں
جناب پروفیسر عبداللطیف صاحب ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج فار مینز(مرحوم)
نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل جغرافیے کے موضوع پر خطاب کیا۔ان کے خطاب کے
بعد جب علامہ ابوفہیم انوارللہ خان صاحب مائیک پر تشریف لائے تو آپ نے خطبہ
کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:"وما اوتیتم من العلم الاقلیلا" یہ سن کر
سامعین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی کیونکہ آپ نے جس موقع کی مناسبت
سے یہ آیت تلاوت فرمائی اس کے دو مفہوم نکلتے تھے۔ ایک تو یہ کہ جغرافیہ کا
موضوع اتنا وسیع سمندر ہے جسے ڈیڑھ دو گھنٹوں میں سمیٹا نہیں جاسکتا
اوردوسرااس سے مزاح کا پہلو بھی نکلتا تھا کہ مقرر نے جغرافیہ کے موضوع پر
بہت کم لب کشائی کی ہے۔ آپ چونکہ جغرافیہ کے ماہر ہیں بلکہ آپ میں تو یہ
خصوصیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے گلوب پر کہیں بھی
انگلی رکھیں تو صحیح جگہ بتادیتے ہیں۔ اگرچہ ان کا لیکچرجغرافیہ سے نابلد
افراد کے لئے نعمت غیرمترقبہ تھا اور انہوں نے ان حضرات کوہی مد نظر رکھتے
ہوئے اپنا لیکچر ترتیب دیاتھا لیکن استاذ محترم کے علم کو سامنے رکھتے ہوئے
تو مقرر نے جتنا بھی بولا وہ واقعی کم تھا جس کا بعد میں مقرر نے خود برملا
اعتراف کیا اورمائیک پر آکر کہا کہ ہمیں خود حضرت صاحب سے فیض حاصل
کرناچاہئے ۔
2۔ آپ درس وتدریس میں کسی بھی قسم کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے ۔ کوئی
ایسا کام نہ ہونے دیتے جس سے طلباء کی تعلیم کا حرج ہو۔ بالخصوص اضافی
چھٹیوں کے تو آپ ویسے بھی خلاف ہیں۔ جس طرح ہماری حکومتیں چھٹی دینے کے
معاملے میں بہت فیاض واقع ہوئی ہیں۔ کہ کبھی میچ کی چھٹی ،کبھی بارش کی
چھٹی ،کبھی الیکشن کے نام پر اس طرح مختلف حیلوں بہانوں سے ہماری حکومتیں
بہت سی غیر اہم اورغیر متوقع چھٹیوں کا اعلان کرتی ہی رہتی ہیں ۔ آپ ایسی
چھٹیوں کے موقع پر طلباء کی تعلیم میں حرج سے بچنے کے لئے ادارہ کو
بندرکھنے کا اعلان نہیں فرماتے تھے۔ ایک دفعہ حکومت سندھ نے کراچی میں
پاکستان انڈیا کے کرکٹ میچ کے سلسلے میں چھٹی کا اعلان کیا۔جب طلباء نے اس
چھٹی کے دیئے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے ازراہ تفنن فرمایا:
سال کے ۳۶۵ دن یعنی پورے سال کا ایک کلینڈر مرتب کرلیا جائے کیونکہ ہرروز
ہی کسی نہ کسی عظیم شخصیت کا یوم ولادت یا یوم وصال ہوگا یا اس دن کوئی اہم
واقعہ رونما ہوا ہوگا ۔اس طور کسی نہ کسی کے نام پر پورا سال چھٹی منائی
جاتی رہے اور درس و تدریس دیگر کام بالکل ترک کردینےچاہئیں۔آپ نے یہ تمام
اس خاص پیرائے اورلہجہ میں فرمایا کہ ارد گردموجود تمام اسٹاف اورطلبہ کے
ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
3۔ جب ایک بار آپ کے علم میں لایا گیا کہ ایک طالب علم نے دوران تعلیم ہی
باقاعدہ مفتی کی مہر بنالی جسے وہ استعمال بھی کرتاہے تو آپ نے فرمایا
کہ(مولوی عجولاً) یعنی انسان جلد باز واقع ہواہے۔وہ درخت لگاتے ہی پھل
کھانا چاہتا ہے اور اس کے لئے کی جانے والی محنت کے لئے تیار نہیں۔وہ کوئی
بھی کام شروع کرتا ہے تو اس کا نتیجہ فوراً دیکھنا چاہتا ہے جب کہ وہ یہ
قرآنی فلسفہ بھول جاتا ہے کہ قرآن مجید میں رب کائنات نے کن فیکون کہا کن
فکان نہیں۔کہ اس نے کہا ہوجا تو وہ ہونے لگتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہوجا تو
ہوگیا۔مثلاً اگر کوئی شخص کھجور کا درخت لگاتا ہے تو اس کے لئے کم وبیش دس
سال کا عرصہ گزرتا ہے تب جا کر وہ پودا ایک تنومند درخت بنتا ہے اورپھل
دینا شروع کرتاہے۔پہلے ہی دن یاابتدائی چند دنوں کے بعد اس سے پھل حاصل
کرنے کی خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔اس کے لئے وہی مخصوص دورانیہ گزرنا
ہی لازم ہے ۔یہی فلسفہ دیگر شعبہ ہائے زندگی مثلاً تعلیم و تربیت، اصلاح
احوال و نفس، تعمیر ملک و سلطنت وغیرہ میں بھی کار فرما ہوتا ہے۔ جسے صبر
اور جہد مسلسل سے ہی حاصل کیاجاسکتاہے۔یہ تمام مرحلے ایک دن یا ایک ہفتے
میں طے نہیں کئے جاسکتے۔جس سے عمومی طورپر لوگ صرف نظرکرتے ہیں۔
یہاں دومزید واقعات کا تذکرہ کیا جارہاہے جو خود راقم کے ساتھ پیش آئے۔
جب راقم ابتدائی کلاس میں تھا ایک بار کسی طالب علم سے تکرار ہوگئی۔ معاملہ
استاذ صاحب کے علم میں آیا تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا انظروا الی
المجاھد الصغیر۔ اس چھوٹے مجاہد کی طرف دیکھو!
جب راقم نے جامعہ میں تدریس کاآغاز کیا تو ابتدائی دنوں میں کچھ طلباء کے
امور آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کئے اور عرض کیا کہ ''سر''چند بچے آپ کے پاس
درخواست لائیں ہیں ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:''کم طفلالک؟''تمہارے کتنے
بچے ہیں ! اس واقعہ کے بعد راقم نے طلباء کو لفظ بچے کہنے سے احتراز کیا
اور ''طلباء ''کا لفظ استعمال کرناشروع کیا۔ |