افغانستان اور شام سے امریکی فوج کی واپسی ۰۰۰ کامیاب کون۔؟

افغانستان میں قیام امن کے لئے کئی مرتبہ کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن ان دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خصوصی دلچسپی دیکھنے میں آرہی ہے جس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہیکہ امریکہ چاہتا ہے وہ افغانستان کی جنگ سے جتنا جلد ممکن ہو سکے نکل جائے کیونکہ یہ جنگ امریکہ کے لئے مہنگی ثابت ہوئی ہے اور مستقبل میں مزید حالات خراب ہوسکتے ہیں ۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکرکمی کرنے کا حکم دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ اس وقت افغانستان میں 14ہزار امریکی فوجی ہیں جن میں سے 5ہزار فوجیوں کو واپس بلایا جارہا ہے۔ جبکہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ افغانستان سے آئندہ مہینوں میں تقریباً 7ہزار کے قریب فوجیوں کو نکال لیں۔ اس سے ایک روز قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے بھی امریکی افواج کی واپسی کا اعلان کیا جس کے دوسرے ہی دن امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس مستعفی ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سمجھا جارہا ہے کہ جیمز میٹس کا استعفیٰ شام سے امریکی افواج کی واپسی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ امریکی فوج کی شام سے اتنی جلدی واپسی ہو، وہ کہہ چکے ہیں کہ ضرورت سے جلدی انخلا ایک اسٹریٹیجک غلطی ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے فوج کی واپسی کے اپنے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ایک اور ٹوئٹ کی کہ ان کے اس فیصلے سے کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ برسوں سے اس کیلئے مہم چلاتے رہے ہیں ۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ پر امریکی سینیٹ کی فارن سروسز کمیٹی کے سربراہ باب کروکر نے اسے بُرا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریپبلکن سینیٹرز کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے افسوس ہوا اور دھچکا پہنچا کہ وہ اپنے کرد اور عرب اتحادیوں کو صدر اسد اور ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح ریپبلکن سینینٹر لنڈسی گراہم جو کہ آرمڈ سروسز کمیٹی کی رکن ہیں ، انکا کا کہنا ہیکہ یہ اقدام ’اوباما جیسی غلطی ہے‘ ۔اور شام سے امریکی افواج کی واپسی کو انہوں نے ایران اور روس کی بڑی فتح قرار دیا۔امریکہ افغانستان اور شام سے فوجیوں کی واپسی سے قبل افغان طالبان سے بات چیت کیلئے کئی کوششیں کرچکا ہے اور گذشتہ اس کی یہ کوشش پاکستان، سعودی عرب اور عرب امارات کے ذریعہ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ افغانستان اور شام کے حالات ابھی کشیدہ ہی ہیں اور امریکہ چاہتا ہیکہ وہ اپنی فوج کوکسی نہ کسی طرح ان ممالک سے واپس لے جائے جس کا اعلان وہ کرچکا ہے۔ امریکہ افغانستان کی 17سالہ طویل جنگ میں طالبان کی طاقت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے اور آخر کار اسے افغان طالبان سے بات چیت ہی فائدہ مند دکھائی دی جسکی وجہ سے وہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں مذاکرات کروانے میں کامیاب رہا۔

9/11 ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعدامریکہ نے اسامہ بن لا دن اور القاعدہ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ اسامہ بن لا دن کو اس وقت کی افغان طالبان حکومت نے پناہ دے رکھی تھی ،اسامہ بن لا دن کے حصول کیلئے امریکہ نے ملامحمد عمرکی افغان طالبان حکومت سے مانگ کی تھی اور جب افغان طالبان حکومت نے اسامہ بن لا دن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کاردیا توامریکہ اور ناٹو فورسز نے افغانسان پر فضائی حملے کرکے طالبان حکومت کا صفایا کردیا اور پھر امریکی و ناٹو فورسز افغانستان میں پھیل کر کئی جگہوں پر زمینی و فضائی حملے کئے۔امریکہ نے افغانستان پر 7؍ اکٹوبر2001کو چالیس سے زائد اتحادی ممالک بشمول برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیااور ناٹو ممالک کے ساتھ ملکرافغانستان پر خطرناک فضائی حملے کئے اور افغانستان کی معیشت کو تباہ و تاراج کردیا۔ اسامہ بن لا دن کو امریکہ اور اتحادی ممالک نے افغانستان سے پکڑنے میں کامیابی تو حاصل نہ کی لیکن افغانستان کو ایک ایسی جنگ میں ڈھکیل دیا جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ اس جنگ میں ہزاروں بے قصور افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ۔ ایک طرف افغان ، امریکہ اور ناٹو فورسز کی جانب سے طالبان اور انکی سرگرمیوں کو ختم کرنے کیلئے کارروائیاں ہوتی رہی ہیں تو دوسری جانب طالبان اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعہ اس کے دشمن فورسز سے زیادہ عام افغان شہریوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ افغانستان میں عام مقامات ، ادارے، شاہراہیں، مدارس اور مختلف مقامات پر خودکش حملے، فائرنگ ، بم دھماکے کوئی نہیں بات نہیں رہی۔ افغان فوج و سیکوریٹی فورسس کے علاوہ امریکی اور ناٹو فوج کو بھی گذشتہ 17سال سے جاری جنگ کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور نہیں معلوم مستقبل میں کب تک جاری رہے گا۔ان ہی حالات کی وجہ سے امریکہ اس طویل اور نقصاندہ و ناکام جنگ سے نکلنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ موجودہ افغان حکومت کے صدر اشرف غنی لون ہے اور چیف ایکزیکٹیو عبداﷲ عبداﷲ حکومت کی معیاد ختم ہونے والی ہے۔ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کے خواہاں نہیں تھے لیکن ان دنوں متحدہ عرب امارات میں سعودی عرب اور پاکستان کے مندوبین کی موجودگی میں امریکہ کے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ امریکی اور افغان حکومتیں افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کو موخر کرتے ہوئے پہلے طالبان کے ساتھ شراکت والی عبوری حکومت کا قیام عمل میں لائے اور ملک سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلاپر اتفاق کریں تو بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی فوجوں کے انخلا کے ساتھ امن عمل کو یقینی بنانے کیلئے سب کو بڑاسرپرائز دے سکتے ہیں اور واقعی امریکی صدر نے دو تین روز بعد ہی افغانستان سے اپنی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے سرپرائز دے دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان کے لئے پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مومند کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کا مکمل انخلا افغان طالبان کا اولین مطالبہ ہے اور وہ اب بھی اسی مطالبے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہونگے۔انکا کہنا ہیکہ طالبان امریکہ کی ایماء پر پاکستان کے اس موقف کو قبول نہیں کرینگے کہ طالبان جنگ بندی کریں اور ہتھیار ڈال کر مذاکرات کی میز پر آئیں اس سے ان کی تحریک ختم ہوجائے گی ، طالبان اب بھی غیر ملکی فوجوں کے انخلا کو اولین ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ رستم شاہ کے مطابق مذاکرات کو کامیاب اسی وقت سمجھا جائے گا اگردونوں فریق افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام پر متفق ہوجائیں۔ان ہی کے بقول کابل حکومت اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ان کا کہنا ہیکہ موجودہ حکمراں نہیں چاہتے کہ اقتدار میں طالبان شراکت دار بنیں، وہ چاہتے ہیں کہ طالبان سے کہا جائے کہ وہ انتخابات جیت کر آئیں۔ اس سلسلہ میں کابل میں افغان صحافی اسد اﷲ داودزئی کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ صدر اشرف غنی لون اور انکی اتحادی حکومت، عبوری حکومت یا طالبان کے اقتدار میں براہ راست شرکت کے منصوبے کی حامی نہیں ہے مگر سابق صدر حامد کرزئی اور انکے حامی عبوری حکومت بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم اسد اﷲ یہ نہیں سمجھتے کہ کابل حکومت امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں امریکن یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر حیدر مہدی کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ گیند امریکہ کے کورٹ میں ہے اور صدر ٹرمپ سب کو چونکا سکتے ہیں اور واقعی امریکی صدر نے افغانستان سے افواج کی واپسی کے ذریعہ چونکا ہی دیا۔ انکا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ ڈیل کے ماہر ہیں۔ بحیثیت بزنس مین بھی وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لے کچھ دے کی حکمت عملی ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے ، گذشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کی افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلی نظر آرہی ہے ۔ صدر ٹرمپ امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان تو کرچکے ہیں، اب رہی بات افغانستان میں عبوری حکومت کی ۔اس سلسلہ میں رستم شاہ مومند کا کہنا ہیکہ اگر عبوری حکومت بنادی جائے تو جنگ اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے۔

خیرافغان طالبان سے مذاکرات شروع ہونے کے باعث افغانستان میں قیام امن کی امیدیں بڑھ گئیں، طالبان نے بھی اس پیشرفت کو مثبت قرار دیا ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہیکہ پاکستان کی کوششوں سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں افغان طالبان اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان متحدہ عرب امارات میں جاری امن مذاکرات پہلی مرتبہ ایک ایسے ماحول میں ہو رہے ہیں جب ہر طرف ایک امید کی فضا بنی ہوئی ہے اور خطے کے تمام ممالک اس عمل کو نتیجہ خیز ہونے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغان حکومت نے جو ماضی میں پاکستان پر افغانستان میں امن کے لیے ہونے والی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزامات لگاتی رہی ہے ان مذاکرات کو پاکستان کی جانب سے ملک میں قیامِ امن کے لیے پہلا عملی قدم بھی قرار دیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس سے قبل افغانستان میں قیام امن کیلئے جتنی بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں ان میں صرف طالبان کے قطر دفتر کے نمائندے شامل ہوتے رہے لیکن حالیہ بات چیت میں آخری وقت میں طالبان کے عسکری اور سیاسی ونگز کے چار اہم نمائندے شامل کیے گئے جن میں ملا امیر متقی، قاری یحیی، ملا محب اﷲ حماس اور ملا عباس اخوند شامل ہیں۔اس طرح طالبان کی سیاسی اور فوجی قیادت اس بات چیت میں شامل ہے۔بی بی سی ذرائع ابلاغ کے مطابق سینئر تجزیہ نگار سمیع یوسف زئی جو افغان امو رپر گہری نظر رکھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن اب ان کی طرف سے بعض ایسے اشارے مل رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ افغان حکومت سے بات چیت کیلئے آمادہ ہوجائیں گے جو یقینی طور پر افغان امن کے لئے ایک بہت بڑا ’’بریک تھرو‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا کہ پاکستان نے ابو ظہبی میں افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور وہ افغان عوام کی آزمائش کے ختم ہونے کیلئے دعا گو ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان مذاکرات میں ابتدائی طور پر تین نکات پر بات چیت ہوئی ہے جن میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا، قیدیوں کا تبادلہ اور مستقبل جنگ بندی شامل ہیں۔ ایک سینئر صحافی عنایت اﷲ کاکڑ کا کہنا ہیکہ اس مرتبہ مذاکرات میں شامل طالبان کے تمام حامی ممالک شاید دل سے چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے عمل کو فروغ ملے۔ انکا مزیدکہنا ہیکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی انتظامیہ کی بھی خواہش ہے کہ وہ پرامن طریقے سے افغانستان سے نکل جائے اور شاید اسی وجہ سے کامیابی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد ہیں جو گذشتہ ایک ماہ کے دوران طالبان کے نمائندوں سے تین مرتبہ ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اﷲ کرے کے سعودی عرب، عرب امارات اور پاکستان کی کاوشیں افغانستان میں قیام امن کیلئے کارگر ثابت ہوں۔

آنگ سان سوچی سے امن ایوارڈ واپس لینے کا اعلان
روہنگیا مسلمانوں پر کئے گئے ظلم و بربیت کے باوجود برما کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی نے جس طرح مظلوم روہنگیا مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کرنے اور برما کی حکومت اور فوج کو اس کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے انکی طرفداری کی گئی ۔ آنگ سان سوچی جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن انہوں نے جرائم کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی ۔جنوبی کوریا میں انسانی حقوق کے دفاع کیلئے سرگرم ملک کی سب سے بڑی تنظیم نے روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم کی وجہ سے برما کی اس خاتون رہنما آنگ سان سوچی سے سنہ 2004 میں دیا گیا انسانی حقوق ایوارڈ واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ یاد گار فاؤنڈیشن کے ترجمان شوجین تائی نے بتایا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے کے صلے میں امن ایوارڈ حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کے روہنگیا میں مسلمانوں پر وحشیانہ جرائم کو جواز مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایوارڈ جرائم کی پردہ پوشی میں مدد گار نہیں ہوسکتا۔ تنظیم کی انتظامی کونسل نے سوچی سے ایوارڈ واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

یمن میں امن مساعی کے لئے حوثیوں اور حکومت کے درمیان معاہدہ
یمن کے وزیر خارجہ خالد الیمانی نے کہا ہے کہ حوثی ملیشیا نے الحدیدہ گورنری اور بندرگاہ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ طے پائے معاہدے پر عمل درآمد پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ معاہدے پرعمل درآمد آخری مراحل میں ہے۔عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے یمنی وزیر خارجہ نے کہا کہ حوثیوں اور حکومت کا الحدیدہ کے حوالے سے حتمی نتیجے تک پہنچنا آئینی حکومت اور ملک میں امن مساعی کی فتح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران سے حوثیوں کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے پرانے فارمولے پرعمل درآمد نہیں کیا گیا کیونکہ حوثیوں نے جیبوتی کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا۔ نئے معاہدے کے تحت حوثی ملیشیا ایران سے کسی قسم کی فوجی امداد حاصل نہیں کرسکے گی۔ایک سوال کے جواب میں الیمانی کا کہنا تھا کہ الحدیدہ میں جنگ بندی کا معاہدہ نافذہ العمل ہوگیا ہے۔ حکومت نے رابطہ کاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور الحدیدہ میں سرکاری فوج اور پولیس کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ بہت جلد الحدیدہ میں زندگی معمول پرآجائے گی۔

سعودی عرب اور سوڈان کا عسکری تعاون اور رابطوں کو فعال بنانے کا عزم
یمن میں جاری حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کی فوجی کارروائیوں کو مزید فعال بنانے کیلئے دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان بات چیت ہوئی ہے ۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب اور سوڈان کی مسلح افواج نے یمن میں سوڈانی فوج کی موجودگی کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک وشبہات دور کرنے کے لیے خصوصی مذاکرات کیے ہیں۔ سوڈانی عسکری قیادت نے سعودی عرب کی فوجی قیادت سے بات چیت کی۔ اس موقع پر سوڈان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل کمال عبدالرؤف نے یمن میں سوڈانی فوج کی باغیوں کے خلاف آپریشن میں عدم شرکت کی خبروں کی سختی کے ساتھ تردید کی اور کہا کہ سوڈان کی فوج یمن میں موجود رہے گی۔ادھر سعودی عرب کے ایک سینئر عہدیدار پائلٹ جنرل فیاض الرویلی نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد سوڈانی فوج کی یمن میں جاری آپریشن میں شرکت اور اس کے مستقبل سے متعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد دونوں ملکوں میں عسکری سطح پر مزید تعاون اور رابطوں کو فعال بنانا ہے۔دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان مذاکرات میں فوجی مشقوں کے میدان میں تعاون، عسکری پروٹوکول اور عسکری تربیت اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بھی بات چیت کی گئی۔
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.