٧۔ طبقاتی نظام اور اس کا سد باب:
آپ کا خاندان چونکہ تجارت پیشہ ہے اس لئے اقتصاد ومعاش کے عملی پہلوؤں سے
بھی آپ آگاہ ہیں۔ آج کے طبقاتی نظام اور بڑھتی ہوئی معاشی بدانتظامی کے دور
میں جب معاشی طور پر پسماندہ افراد کا استحصال کرنا ایک عام سی بات ہے۔
بقول صبا
اور طبقات میں انسان بکھر جائیں گے
مشورے روز ہواکرتے ہیں زرداروں میں
آپ عام آدمی کے اس درد کو محسوس کرتے ہیں ۔ آپ کے پاس صرف نظریات ،خیالات
وافکار نہیں بلکہ عملی طور پرظلم کے اس سفاکانہ وبے رحمانہ نظام کوختم کرنے
کے لئے لائحہ عمل موجود ہے۔جو کہ اسلام نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال
پہلے دیا تھا۔
آپ فرماتے ہیں ارتکاز دولت اورمعاشرتی ناہمواری امن و سلامتی کے لئے زہر
قاتل ہے اور ملک ،قوم اور معاشرہ کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔کیونکہ اس سے
مالدار(Have) اور نادار (Have not) کے درمیان ایک جنگ شروع ہوجاتی ہے جب
کمزور اور ناتواں طبقہ بغاوت کا علم سربلند کرتا ہے تو معاشرہ انتشار و
مکمل تباہی کا شکار ہوجاتاہے۔ جب کوئی شخص بڑا سرمایہ دار، جاگیردار نہیں
رہے گا تو وہ اپنی دولت کی طاقت وقوت کے بل پر دوسروں (بالخصوص سیاسی حکام)
کو نہ خرید سکے گا اور نہ ان پر ظلم کرسکے گا۔ اس ارتکاز دولت کا سد باب
اور توڑ صرف تین باتوں پر عمل کرنے میں ہے۔
زکوٰۃ کی صحیح اور منصفانہ تقسیم، وراثت کے قوانین پر کماحقہ عمل اور سود
کی حرمت ۔ یعنی دو مثبت(یعنی زکوٰۃ اور قوانین وراثت پر عمل کرنا) اور ایک
منفی (یعنی سود کی حرمت)۔
زکوٰۃ ایک مکمل اور باقاعدہ معاشرتی نظام ہے۔زکوٰۃ دولتمندوں سے لی جائے گی
اور اس سے نادار لوگوں کی مدد کی جائے گی جس سے نظام اقتصاد ترقی کرے گا،
انسان کے دل سے مال کی حرص و ہوس ختم ہو گی، محروم طبقہ کی کچھ دادرسی ہوگی
اور محروم طبقہ کی امراء سے منافرت میں کمی ہو گی۔ اوراسی طرح اسلامی
قوانین کی رُوسے وراثت کی صحیح تقسیم سے دولت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم
ہوجائے گی کیونکہ وارث کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد اس کے ورثاء میں
تقسیم ہونے سے دولت کا ارتکاز خودبخود ختم ہوجائے گا۔اسی طرح سود کی حرمت
بھی انسان کو اپنا سرمایہ کاروبار میں لگانے کی ترغیب دے گی جس سے سرمایہ
منجمد نہیں ہوگا بلکہ گردش کرتا رہے گااورپیسے کی گردش کی اہمیت وضرورت سے
ماہرین معاشیات بحسن وخوبی آگاہ ہیں ۔ اور اس طرح ان تمام امور کے نتیجے
میں ملک میں غریب اور امیر کے درمیان فرق کم ہوجائے گااور نتیجۃً ملک میں
سلامتی ، خوشحالی کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی قائم ہوجائے گا۔
٨۔انسان : مشقت ومصائب
قرآن مجید کی سورہ بلد کی آیت چار کی تفسیر کے ضمن میں آپ فرماتے ہیں:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ کَبَد(سورۃ بلد:4)بے شک ہم نے آدمی کو
مشقت میں رہتا پیدا کیا۔
انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیاہے۔ اس کی پوری زندگی مشقت،مصائب،رنج والم
سے عبارت ہے۔ اس مشقت کا آغاز انسان کی پیدائش سے ہی ہوجاتاہے۔ پھر جیسے
جیسے بڑھتا ہے اس پر ذہنی ،سماجی،جذباتی دباؤ بڑھتا جاتاہے۔بچپن میں وہ
سوچتا ہے کہ مجھ پر تو ہرایک قدغنیں لگاتا ہے۔ بلا وجہ روک ٹؤک ہوتی ۔نہ
گھر میں اپنی مرضی چلتی ہے نہ اسکول میں ۔ وہ اپنا بھاری بستہ کاندھے پر
لادے (حمال) بنا پھرتا ہے۔ اسکول کی تعلیم کاالگ تناؤ ہے کہ کہیں رزلٹ خراب
نہ آجائے! بہرحال اسی فکر کاحامل اس بات پر خوش ہوتاہے کہ جب بڑا ہوجاؤں گا
تو پھر آزادی مل جائے گی۔ لیکن بڑے ہونے پر صرف مشکلات اورمصائب کے انداز
بدل جاتے ہیں لیکن یہ پہلے سے بھی سخت اور زیادہ شدید ہوجاتے ہیں۔ اب اس کے
کاندھے پر گھروالوں کی ذمہ داری آجاتی ہے۔ اور جاب کی صورت میں ،خانگی
معاملات اور سماجی تعلقات ہر جگہ کا الگ دباؤ وہ محسوس کرتاہے۔بہرکیف یہ
سوچتا ہے کہ بڑھاپے میں ہی شاید آرام مل جائے۔ لیکن وہاں جاکر ایک بار پھر
تکالیف کا انداز بدل جاتاہے۔ بڑھاپا اور پھر اس کی تنہائی بہرحال انسان کو
اس دنیا میں کسی بھی پل راحت حاصل نہیں ، کرب والم ،رنج وغم ،مصائب وشدائد
بہرحال بڑھتے ہی رہتے ہیں۔آپ جس شخص سے بھی بات کرلیں آپ اسے مشقت ،ومصائب
کا شاکی پائیں گے۔
٩۔ احسن عملاً:
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ
عَمَلًا (سورۃ الملک:2)
آپ مدظلہ العالی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آج کل دیندار
مسلمانوں کا زور اعمال کی کثرت اورطوالت پر ہے۔جب کہیں بات نکلتی ہے تو یہی
کہا جاتا ہے کہ فلاں نے سترہ حج کرلئے، وہ اتنے روزے رکھتا ہے، اس نے اتنا
چندہ دیا۔۔۔ حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن میں کہیں بھی اَکثرُ عملاً نہیں
فرمایا۔ قرآن مجید میں اعمال وافعال کے لئے جہاں بھی ذکر آیا ہے " احسن
عملا"آیا ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب
العزت کو اعمال کی کثرت اور طوالت مطلوب نہیں ہے دوسرے الفاظ میں اسلام
Quality مانگتا ہے Quantity نہیں اور اس حُسن کے ساتھ دوسری اہم چیز جو
مطلوب ہے وہ مداومت ہے اگرچہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔جیسا کہ صحیح بخاری کی
حدیث مبارکہ میں ہے:
وَأَنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ۔
اللہ رب العزت کے نزدیک پسندیدہ عمل مداومت (ہمیشگی) ہے اگرچہ قلیل پر ہی
کیوں نہ ہو۔
صحیح بخاری کی ایک اورروایت میں ہے : اكْلَفُوا مِنَ الأَعْمَالِ مَا
تُطِيقُونَ خود کو ان اعمال کا مکلف بناؤ جن کی طاقت رکھتے ہو۔اپنی طاقت سے
بڑھ کر کچھ کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ اللہ رب العزت نیت دیکھتا ہے اعمال کی
کثرت وقلت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔بعض احادیث کے مفہوم میں یہ بھی وارد ہے
کہ تم اعمال کی کثرت سے تھک جاؤ گے لیکن رب نہ عاجز ہوتا ہے نہ تھکتا ہے اس
لئے اپنی استطاعت کے مطابق " احسن عملا "پر ہی عمل کرو۔
١٠۔ پردہ ،احترام بنت حوّا:
آپ اسلام کے عطاکردہ خواتین کے حقوق کے بھی پاسدار وعلمبردار ہیں ۔ آپ ان
کا بے حد احترام کرتے ہیں ۔اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم
دیا ہے اورخود نبی اکرم کی حیات مبارکہ و اسوہ حسنہ کی مثالیں ہمارے سامنے
موجود ہیں کہ عورت کو رشتہ،تعلق اور روپ میں عزت و تکریم دی جائے۔ آپ ان
مثالوں پر عمل پیرااورکاربند ہیں ۔بالخصوص آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے
موسوم جو کتابچہ ترتیب دیا ہے اس میں خواتین کے حقوق اور ان سے اچھاسلوک
روارکھنے کے حکم نبوی کو جامع انداز سے بیان فرمایا ہے۔
سکون نفس ، خاندان و معاشرہ کو مستحکم کرنااور عورت کے احترام کو ملحوظ
رکھنا،یہ ہے وہ فلسفہ اوراغراض جو اسلام پردہ کے حوالہ سے تمام انسانیت کے
لئے پیش کرتا ہے۔
جامعہ کی تاریخ میں ٨ مارچ سن ٢٠٠٠ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر
علیمیہ فورم ہال میں ایک خاتون مبلغہ نے تقریر کی ۔یہ علیمیہ کی تاریخ کا
ایک منفرد اورانوکھاواقعہ ہے جونہ آپ کے دور سے پہلے کبھی ہوا اور نہ شاید
بعد میں کبھی ممکن ہو۔ان کی تقریر کے بعد آپ نے کلمات تشکر کے طور پر
فرمایا: عورت اسلامی معاشرے کا ایک اہم ستون وکردار ہے ۔ جسے اسلام نے
مغربی معاشرہ کی طرح صرف مسز فلاں کا درجہ نہیں دیابلکہ ان کا اپنا ایک
مقام اور حیثیت ہے ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تاریخ اسلام میں حضرت خدیجۃ
الکبریٰ،حضرت عائشۃ الصدیقہ ، حضرت فاطمۃ الزہرااوردیگر صحابیات وتابعیات
وتبع تابعیات رضی اللہ عنہن جس منصب ومقام پر فائز ہیں مغربی معاشرے اس کی
کوئی نظیر نہیں ۔ اورحضور نے جس انداز سے اپنی رضاعی والدہ اوربہن کی تعظیم
وتوقیر فرمائی کسی اورمذہب کی عورت(یعنی حقیقی ماں اوربہن) اس کا تصور بھی
نہیں کرسکتی ۔
تلک عشرۃ کاملۃ۔ یہ کل دس اقوال ہیں جن میں علم وحکمت کے خزانے بھرے ہوئے
ہیں۔ عاجز بس ان ہی اقوال پر اکتفاء کرے گا۔
راقم پر خصوصی شفقت ومحبت:
١٩٩٣ء میں جب راقم نے ابتدائی جماعت (Preparatory Class)(موجودہ صف اللغۃ
) کا امتحان پاس کیا تو اس وقت استاد محترم جناب انوار اللہ صاحب اوراس وقت
کے صدر الوفاق جناب حبیب بٹ صاحب (مرحوم) ، اور جنرل سیکرٹری جناب شیخ محمد
جعفر صاحب (مرحوم) تینوں حضرات ذی وقار و حشم نے مجھے سالانہ امتحان میں
کامیابی حاصل کرنے پر سو سو روپے بطور انعام دیئے اور سرانوار اللہ صاحب
کاکہاہوا جملہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے کہ یہ ہمارے ادارے کے سب سے کم
عمر طالب علم ہیں ۔
پھرجب نامساعد حالات و گھریلومسائل کی وجہ سے ١٩٩٥ء میں راقم نے تعلیم
ادھوری چھوڑدی تو شفیق، مہربان،ہمدرد،غمگسار،استاد محترم ،پرنسپل علامہ
ابوفہیم انواراللہ صاحب نے میرے ہم جماعت (گریجویٹ جناب طاہر پرویز صاحب)
کوہاسٹل کی پیشکش کے ساتھ گھر بھیجا۔ جنہوں نے بہت محنت وکوششوں سے گھر
ڈھونڈا اور والد صاحب کو استاد محترم کا پیغام پہنچایا۔ جس پر والد صاحب نے
مجھے دوبارہ جامعہ میں داخل کروایا۔ دوبارہ داخلہ کے بعد استاد محترم نے
راقم کی ہرلحاظ سے مدد و اعانت کی۔یہاں تک کہ راقم نے جامعہ علیمیہ سے
فراغت کی سعادت حاصل کی۔
عروج اہل کرم کے لئے ہے دنیامیں
کس آبرو سے ہواپر سحاب ہوتاہے
فراغت کے بعد راقم نے جامعہ میں ہی تدریس کی خواہش کااظہار کیا تو استاد
محترم نے راقم کویہ پیشکش کی کہ تم تخصص میں داخلہ لے لو تمہارے اخراجات
میں برداشت کروں گا ۔ لیکن راقم نے جامعہ میں تدریس کی سعادت کوتخصص پر
ترجیح وفوقیت دی اور اپنی مادر علمی میں تدریس کا اعزاز حاصل کیا۔
جب راقم کے پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو آپ نے بچے کا نام پوچھا۔جب عاجز نے
محمد عبدالرحمن رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا نہیں
محمدعبدالقدوس رکھو۔یوں راقم نے آپ ہی کے حکم پر اپنے پہلے بیٹے کا نام
محمد عبدالقدوس رکھا۔
الغرض میرے والدین کے بعد میرے لئے سب سے زیادہ قابل احترام ،لائق تعظیم
شخصیت استاد محترم کی ہے جن کے نہ صرف راقم پر بے پناہ ،
لاتعداد،انگنت،بےشمار احسانات، عنایات وکرم نوازیاں ہیں بلکہ اس کے ساتھ
ساتھ ان کی شخصیت کے مزیدکئی خوبصورت پہلو مثلاً اذکار انوار،اعزاز انوار،
احباب انوار، ابناء انوار، افراد انوار،اقلام انوار،افکارانوار، اثمار
انوار، اسفارانوار،اوراد انوار،اسرارانوار، انوار انوار، تجلیات انوار،
ایسے ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لانے کی قوت وطاقت اس عاجز وناتواں قلم کار
میں نہیں ہے کہ وہ ان(احسانات) کا احاطہ کرسکے۔یہ تو ان کے ادنیٰ اورحقیر
ترین طالب علم کی نگارشات قلبی ہیں جس کے لئے اس نے قلم کا سہارا لیا اور
کاغذ کے ان ٹکڑوں سے دل بہلایا ہے۔بقول شاعر
تحریر میں سمٹے ہیں کہاں دلوں کے درد
بہلارہے ہیں خود کو ذرا کاغذوں کے ساتھ
اللہ رب العزت سے دعاگوہوں کہ آپ کو صحت وتندرستی وعافیت سے طویل عمرعطاکرے
تاکہ آپ کا سایہ عاطفت ہم پر تادیر قائم رہے اور ہم آپ سے مزید فیض پاسکیں
۔ نیزاللہ رب العزت آپ کو دنیوی واخروی عظیم کامیابیوں (فوزوفلاح عظیم
اورسعادت دارین) سے نوازے ۔آمین
|