یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دو قسم کے انسانوں کے اعمال کا
رزلٹ ہمیشہ ایک جیسا ہی نکلتا ہے۔اس میں کسی بھی فکر ومذہب کا تعلق نہیں۔
وہ انسان دنیا کے کسی بھی مذہب و فکر سے تعلق رکھتا ہو یا کسی بھی زمانے یا
علاقے سے تعلق رکھتا ہو بہر صورت نتیجہ ایک جیسا نکلنا ہے۔ انسانی تاریخ
کنگال کر دیکھ بھی لی جاوے تو یہ بدیہی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں نظر أٸے
گی۔ اللہ نے ان دونوں کےمعاملات کو أخرت تک بھی ڈیلے نہیں کیا بلکہ ان کے
ساتھ نقد معاملہ دنیا میں ہی کیا ہے۔ وہ دونوں یہ ہیں۔
١۔ خیرات دینے والا
٢۔ قاتل/ ظالم
خیرات دینے والا: خیرات دینے والا انسان کھبی بھوکا نہیں مرتا۔حضرت أدم سے
لے کر أج تک جتنے بھی لوگوں نے کسی بھی مَد میں انسانیت کے لیے اپنی مال سے
خیرات دی ہے اللہ نے اس کے مال میں بے تحاشا اضافہ فرمایا ہے اور بلاتخصیص
مذہب و نسل اور علاقہ وہ لوگ انسانیت کے ہیرو کہلاٸے ہیں۔ جو لوگ چیریٹی
کرتے ہیں وہ مال و جاٸیداد اور کاروبار میں بے تحاشا ترقی کیساتھ دلی سکون
بھی پاتے ہیں۔اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے
بہتر ہے اور دینا بھی خاموشی سے چاہیے نہ کہ ڈھنڈورا پیٹ کر۔اگر کوٸی
ڈھنڈورا پیٹ کر بھی دے تو کوٸی فرق نہیں پڑھتا۔
أج بھی دنیا کے اندر جتنے بھی بڑے کاروباری ہیں ان کی کامیابی کا واحد راز
انسانیت کے لیے اپنی مال سے خیرات دینا ہے۔غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ
*زکواة،صدقات، عشر ، خمس، مال امام اور نذر ونیاز* وغیرہ کا بھی یہی پس
منظر ہے۔اوریہی فلسفہ کارفرما ہے۔
دنیا کے اندر جتنے بھی چیریٹی ادارے ہیں انکے پیچھے کسی نہ کسی فرد کا
تعاون ہے اور انسانیت کے لیے کی جانے والی اسی تعاون کی وجہ سے وہی فرد
دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہوچکا ہوتاہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے
بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود بھی انسانیت کے لیے حصہ نہیں نکالا ان کی مال
و دولت ان کے لیے وبال ہی بن گٸی ہے۔اپنے گاوں کے سخی اور مخیر شخص سے لے
کر بل گیٹس،چک فینی، وارن بفٹ،صدرالدین ہاشوانی،تک اور بل گیٹس سے حضرت
عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک اور اس سے حضرت أدم علیہ السلام تک تمام
مالداروں کو دیکھ لیں۔ ان کی تمام تر مالداری کے پیچھے ایک ہی راز نظر أٸے
گی۔وہ ہے اپنے مال سے دکھی انسانیت کا حصہ۔ وہ انسان کھبی غریب نہیں ہوسکتے
جن کی مال میں دکھی انسانیت کا حصہ ہو۔ وہ ادارے کھبی ڈوب نہیں سکتے جہاں
غریب کا باقاعدہ شیٸر ہو۔اور وہ کاروبار کبھی بھی خسارے میں نہیں جاسکتا
جہاں تڑپتی انسانیت کے لیے کوٸی کوٹہ مخصوص ہو۔انتہاٸی بدقسمت ہیں وہ لوگ
جن کا مال کسی انسان کا درد نہیں بانٹ سکتا۔ بڑا بدنصیب ہے وہ انسان جس کی
دولت کسی مریض کے کام نہ أٸے۔اس دولت کی ویلیو ہی کیا جو کسی تڑپتے لاشے کو
زندگی نہ دے سکے اور نہ ہی کسی غریب کے بچے کی تعلیم میں معاون بن سکے۔اور
انتہاٸی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی دولت دکھی انسانیت کے کام أجاوے۔اور
انہیں دنیا میں ترقی بھی ملے اور روحانی سکون بھی۔یہ وہی چیز ہیں ہیں جس کی
تمنا مسلمان ہر وقت ان الفاظ میں کرتے ہیں *فی الدنیا حسنة وفی الاخرة
حسنة* کاش! ہم میں سے ہر ایک کو یہ فارمولا سمجھ أجاتا۔
تھوڑی دیر کے لیے ہی جاٸزہ لیں کہ ایدھی،الخدمت،سندس فاونڈیش،کاروانی علم
فاونڈیشن،سیلانی فاونڈیشن،أغاخان فاونڈیشن،اخوت فاونڈیشن اور دینی مدارس
وجامعات اور دیگر کٸی ادارے جو بہر صورت کسی نہ کسی مَد میں دکھی انسانیت
کی خدمت کررہے ہیں۔اس لیے یہ تمام ادارے درجنوں خامیوں اور کمزریوں کے
باوجود بھی ترقی کرتے جاتے ہیں۔لاکھوں کروڈوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ظالم/ قاتل: یہ بھی بدیہی حقیقت ہے کہ ظالم کو اللہ نے اسی دنیا میں ہی
انجام تک پہنچایا ہے۔انسانی تاریخ میں أج تک جتنے بھی انسانوں،اداروں،
تنظیموں، پارٹیوں اور ریاستوں نے قتل اور خون کا کاروبار کیا ہے ان کو اللہ
نے اسی دنیا میں ہی سب کے سامنے نشان عبرت بناکر رکھ دیا ہے۔ذرا غور کیجے۔
جن جن لوگوں نے انسانی خون کا کاروبار کیا ہے۔دکھی انسانیت کو تڑپایا ہے
اللہ نے ان لوگوں کو بہت کم عرصے میں ذلالت کی موت دی ہے۔یہ اللہ کی فطرت
کے خلاف ہے کہ وہ انسانیت کو تڑپانے والے کو معارف کرے۔ اللہ اپنی ذات
کیساتھ شرک کرنے والے کو مہلت دیتا ہے لیکن کسی بھی مَد میں خون کے کاروبار
کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا۔
مال قارون جتنا ہو مگر اس میں دکھی انسانیت کا حصہ نہ ہو تو انجام بھی
قارون والا ہی نکلتا۔بادشاہت و اختیار فرعون سے بھی بڑا ہو مگر ظلم اور
قتلِ انسانیت شامل ہو تو پھر حشر بھی فرعون جیسا ہوتا ہے۔ اللہ قارون اور
فرعون کے انجام سے ہمیں بچاٸے۔
میرا وجدان یہی بتاتا ہے کہ امریکہ اپنی تمام تر دجالیت کے باوجود بھی خدا
کے عتاب سے اس لیے بچا ہوا ہے کہ وہاں انسانیت کے لے بے تحاشا خرچ کرنے
والے اور سب سے زیادہ خرچ کرنے والے موجود ہیں۔اور ریاست امریکہ بھی اپنے
مخصوص مقاصد ہی کے لیے مگر تیسری دنیا کے غریبوں پر سب سے زیادہ خرچ
کرتاہے۔
اور ہاں پاکستان بھی اپنی تمام تر کرپشن اور لوٹ مار کے باوجود بھی اس لیے
قاٸم ہے کہ یہاں اللہ کے نام پر چیریٹی کرنے والے کروڈوں لوگ موجود ہیں۔
تو
احباب کیا کہتے ہیں؟ |