بسم اﷲالرحمن الرحیم
مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دوراقتدار کے بعد تین سو سال تک کم و بیش پوری
امت مسلمہ پر غلامی مسلط رہی۔ گزشتہ صدی کے نصف اول میں جب پوری امت میں
بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں تو فکری و
نظریاتی قیادت نے امت کی سیادت سنبھال لی۔تجدید دین کا یہ عمل مشرق سے مغرب
تک پوری امت مسلمہ میں شروع ہوا۔علامہ اقبالؒ، مولانا مودودیؒ،سید جمال
الدین افغانی ؒ اور امام خمینی ؒ اسی باب کا عنوان تھے۔عرب اقوام میں اس
دینی و ملی شعور کی تحریک کا آغاز کرنے والے امام حسن البنا شہیدؒ تھے۔ان
لوگوں کی بیدار مغز قیادت نے امت کو مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد کیا اور
مسلمان نوجوانوں میں دورغلامی کے احساس کمتری کو اعتماد نفسی سے بدل
دیا۔انہیں لوگوں کی کاوشوں کے نتیجے میں مسلمان آج اس قابل ہوئے ہیں کہ
اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرسکیں ۔امت مسلمہ میں جہاد جیسے ادارے کی
تجدید کا سہرا بھی اسی قیادت کے سر ہے۔
امام حسن البنا شہیدؒ نے1906میں مصر کی بستی محمودیہ کے ایک علم دوست
گھرانے میں آنکھ کھولی۔امام صاحب کے والد پیشہ کے اعتبار سے اگرچہ گھڑی ساز
تھے لیکن وقت کے بہت بڑے عالم دین اور بنیادی طور پر محدث تھے۔انہوں نے
مسند امام احمد بن حنبلؒکو فقہی ابواب کے تحت ترتیب دیا اور اسکی شرح بھی
لکھی ،اسکے علاوہ بھی متعدد کتب حدیث پر آپ کی قابل قدر کاشیں موجود ہیں ،گویا
امام حسن البناؒ کو والد کی طرف سے دینی تعلیم کا واضع اور شفاف تصور گھر
میں ہی میسر آگیا۔سولہ سال کی عمر میں امام حسن البناؒ نے قاہرہ کے
دارالعلوم میں داخلہ لیا اور1927ءمیں گریجوئیشن تک کی تعلیم وہاں پر مکمل
کی۔آپ کی شاندار تعلیمی کارکردگی کی بنا پر آپ کواسمائیلیہ کے ”مدرسہ
امیریہ“میں مدرس تعینات کر دیا گیا،یہ سرکاری ملازمت تھی۔یہ دور امت پر
فکری زوال کا دور تھا اور امام حسن البناؒ امت کی اس حالت پر صبح و شام
گہری سوچ میں غلطاں رہا کرتے تھے۔مسلسل غوروفکر کے بعد اور بہت قریبی
ساتھیوں کے مشورے سے مارچ1928میں آپ نے ”اخوان المسلون“کی بنا
ڈالی۔1933ءمیں انکا تبادلہ کر دیا گیا اور وہ قاہرہ آگئے اور اخوان کا
مرکزی دفتر بھی قاہرہ میں منتقل ہوگیا۔
”اخوان المسلمون“بہت جلد مصر سمیت تمام ممالک عرب کے مسلمانوں کی عام طور
پر اور مسلمان نوجوانوں کی خاص طور پر دلوں کی دھڑکن بن گئی۔اخوان کی اس
تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اسکی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ
ہوتا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام حسن البناؒ کے لیے تدریس و تنظیم میں
مطابقت پیدا کرنا مشکل ہوگیا۔آپ نے راہ عزیمت کا انتخاب کیا اور 1946ء میں
سرکاری ملازمت جیسی نعمت سے استعفیٰ دے کر تو اخوان المسلمون کے لیے اپنے
آپ کو تاحیات وقف کردیا۔آپ نے مصر کی بستی بستی اور قریہ قریہ میں اخوان کی
شاخیں کھولیں انکے ذمہ داروں کا تقرر کیا اور لٹریچر کی ترسیل وسیع پیمانے
پر جاری و ساری کی۔یہ سارا کام بڑی خاموشی سے مسجدوں اور گھروں کی بیٹھکوں
میں وعظ و تزکیر اور چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے ذریعے تکمیل پزیر ہوتا
رہا۔گویا گھاس کے اندر ہی اندر پورا دریا بڑی خاموشی سے بہتا چلا رہا تھا۔
اخوان کے مقاصد بالکل وہی تھے جو انبیاءعلیھم السلام کی تحریکات کے مقاصد
ہوا کرتے تھے۔1938ءمیں ایک بار ”اخوان المسلمون“کی غرض و غایت اور مقاصد پر
روشنی ڈالتے ہوئے امام حسن البناؒ نے طویل تقریر کی آپ نے فرمایا”ہمارا
عقیدہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات و احکام واضع وجامع ہیں ،جو لوگ یہ خیال کرتے
ہیں کہ اسلامی تعلیمات صرف عبادات و روحانیات پر ہی مشتمل ہیں وہ غلط فہمی
کا شکار ہیں ۔اس لیے کہ اسلام نظریہ حیات عقائدوعبادات ،وطنیت و شہریت اور
کتاب و تلوار سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔اب اگر امت چاہتی
ہے کہ وہ اسلام کے لحاظ سے صحیح مسلمان بنے تو اس پر واجب ہے کہ اسلامی
تعلیمات کو زندگی کے تمام امور پر نافذ کرے ،اﷲ تعالیٰ کے رنگ میں اپنے آپ
کو رنگ لے اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری کرے“۔
اسلام کے اس جامع تصور کی وضاحت کے بعد امام حسن البنا شہیدؒ نے اخوان
المسلمون کی غرض و غایت بیان کی”اخوان المسلمون کا مقصد صحیح اسلامی
تعلیمات پر ایمان رکھنے والی ایسی نئی نسل کی تشکیل ہے جو امت کی زندگی کے
تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر اسلامی رنگ میں رنگ دے۔جس اسلام پر اخوان
المسلمون کا یقین وایمان ہے اس کے ارکان میں ایک اہم رکن حکومت بھی ہے ۔ہم
چاہتے ہیں کہ اسلامی وطن ہر غیر ملکی اقتدار سے آزاد ہو اور پھر اس آزاد
وطن میں خودمختار اسلامی حکومت قائم ہو جو اسلامی احکام کے تحت کام کرے اور
اس کے معاشرتی نظام کو نافذ کرے ۔اس منزل کو پختہ یقین ،باریک بینی سے
تشکیل و تدوین اور مسلسل جدوجہد سے ہم حاصل کر سکتے ہیں“۔
امام حسن البنا شہیدؒ نے اخوان المسلمون کو ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ فراہم
کیا۔اخوان کے دستور کے مطابق انکا مرکزی سربراہ”مرشدعام“کہلاتا ہے جسے
اخوان المسلمون کی مشاورتی اسمبلی کثرت رائے سے منتخب کرتی ہے۔مرشد عام کی
معاونت کے لیے بنیادی کمیٹی ہوتی ہے جو پورے ملک سے اخوان کے متحرک لوگوں
کے انتخاب سے وجود میں آتی ہے۔مرشدعام اگرچہ اخوان المسلمون کا سربراہ ہوتا
ہے لیکن بنیادی کمیٹی کے اختیارات مرشدعام سے زیادہ ہوتے ہیں ۔اخوان کا ایک
سیکرٹری جنرل بھی ہوتا ہے جس کا انتخاب مرشدعام کے مشورے سے بنیادی کمیٹی
کرتی ہے۔مرکزی دفاتر کا مجموعہ جنرل ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے جس میں متعدد
شعبے پورے ملک کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے
ہیں۔امام حسن البنا شہیدؒ نے ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کو اخوان المسلمون
میں شامل کیا1933ء میں اخوان کی خواتین ونگ کا قاہرہ میں افتتاح کیا گیا جو
کہ بعد سے آج تک خواتین میں تیزی سے متحرک ہے۔
امام حسن البنا شہیدؒ تجدیدواصلاح کے داعی تھے اور اسلامی شریعت کو معاشرے
میں جاری و ساری ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ خواہش اگرچہ ہر مسلمان کے سینے
میں ہوتی ہے لیکن امام حسن البنا شہیدؒ نے جس انداز سے عربوں میں اپنی فکر
کو تحریک کی شکل دی اس سے سامراج گھبرا گیا اور انگریزوں نے اخوان المسلمون
کے بڑھتے ہوئے اثرات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔پہلے اخوان کے رسالہ کو
بند کیا گیا پھر انکی قےادت کو امام حسن البنا شہیدؒ سمیت شہر بدر کیا جس
پر مصر کی پارلیمنٹ نے بھرپور احتجاج کیا اور حکومت کو اپنا فیصلہ واپس
لینا پڑا۔1946میں اخوان المسلمون نے اپنا روزنامہ نکالنا شروع کیا جس کی
اشاعت میں روزبروز اضافہ اور بے حد مقبولیت نے سامراج کی نیندیں اڑا دیں۔
انگریزوں نے جب اخوان المسلمون پر حالات تنگ کیے تو اخوان کے لوگوں کا
انگریزوں سے براہ راست تصادم بھی ہوا ۔ابھی یہ کشمکش جاری تھی فلسطین میں
اسرائیل کے قیام کا اعلان ہو گیا۔1946 ءمیں ہی جب لندن جاتے ہوئے قائداعظم
ؒ نے قاہرہ میں مختصر قیام کیا تو اخوان کے سرکردہ راہنماؤں نے انکا پرجوش
استقبال کیا ،ان کی میزبانی کی اور پھر اگلی فلائٹ پر انہیں رخصت کیا۔1948ء
میں جب اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا تو اخوان المسلمون نے اپنے
رضاکار جوک درجوک بھیجے ۔اخوان المسلمون کے سرفروشوں نے بار بار جنگ کے
پانسے پلٹے اور دادشجاعت دیتے ہوئے دور صحابہ کرام کی مثالیں تازہ کر دیں ۔اخوان
المسلمون کے جانبازوں کی کاروائیاں یہودی پریس میں بھی شائع ہوئیں اور
یہودونصاری کو سمجھ نہیں آتی تھی آخر ان لوگوں کا کیا علاج ممکن ہے۔
یہ سب باتیں سامراج کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔وائے قسمت کہ دشمن کو ہمیشہ
سے امت مسلہ کے اندر غداروں کی ایک کھیپ میسر رہتی ہے۔مدینة النبیﷺ کا رئیس
المنافقین عبداﷲ بن ابی اپنے کردار میں شاید تاقیامت زندہ رہے گا۔مصری
وزیراعظم نے بیرونی دباؤ میں آکر اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے
بالآخر8دسمبر 1948ءکو مارشل لاءآرڈیننس نمبر63کے ذریعے اخوان المسلمون کو
خلاف قانون قرار دے دیا۔اسلامی دنیا میں یہ پہلی دفعہ ضرور تھا لیکن آخری
دفعہ نہیں تھا۔سامراج نے اس طریقے کو بعد میں پاکستان اور ترکی سمیت کئی
اسلامی ممالک میں بھی آزمایا۔صد افسوس کہ اپنے پیش رؤں کا انجام دیکھنے کے
باوجود امت کے حکمران آج تک دوست اور دشمن کی پہچان سے نابلد ہیں ۔
اخوان المسلمون پر پابندی تو محض ایک بہانہ تھا حقیقت میں تو اس تحریک کو
ختم کرنا ہی مقصود تھا۔ چنانچہ پورے ملک میں پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔اخوان کے
لوگ جیلوں میں ٹھونسے گئے اور ان پر تشدد کے لیے استعمال کیے جانے والے
آلات سامراج نے فراہم کیے اور برطانیہ سے انہیں درآمد کیا گیا۔عورتوں
بوڑھوں اور بچوں تک کو معاف نہ کیا گیا۔جیلوں میں طرح طرح کے تشدد کے ایسے
طریقے اخوان پر روا رکھے گئے کہ انہیں پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں
لیکن آفرین ہے اخوان المسلمون پر کہ ان کے پائے استقامت میں بال برابر بھی
جنبش نہ آئی۔جیلوں میں جانے والوں کے بچوں اور ان کے گھروں کی نگہداشت باہر
رہ جانے والوں نے اس تندہی کے ساتھ کی کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی۔
امام حسن البنا شہیدؒ کو حکومت براہ راست تو کچھ نہ کہہ سکی لیکن انکی
مسلسل نگرانی کی جانے لگی اور بالآخر12فروری 1949ءکو خفیہ پولیس اہلکاروں
نے اس وقت امام کو گولی کا نشانہ بنایا جب وہ اخوان المسلمون کے شعبہ
نوجوانان”شبان المسلمون“کے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔امام حسن البنا شہیدؒ
اپنے رب سے جاملے اور ہمیشہ زندہ رہنے کے منصب پر سرفراز ہو گئے۔سلام ہو اس
تنظیم پر اور اسکی قیادت پر کہ جس نے اپنے خون سے امت مسلمہ کے شجر سایہ
دار کی آبیاری کی۔اﷲ تعالیٰ امام حسن البنا شہیدؒ سمیت امت کے کل شہدا کو
اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ،آمین۔ |