تحریر: عبداﷲ یوسفزئی
بچپن میں ہمیں سکھایا گیا تھا کہ دنیاکیسب سے عظیم سیاست دان حضرت محمد ﷺتھے-
آپ ﷺکے صفات، کردار اور لوگوں سے برتاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے سیاست
کومعزز پیشہ سمجھ لیا- لیکن جب ہوش سنبھالا تو پتہ چلاکہ یہاں تو سیاست کسی
اور شے کا نام ہے- یہاں توسیاست گالم گلوچ اور جھوٹ کا نام ہے- یہاں تووہ
بندہ بہترین سیاست دان سمجھاجاتاہے جوجھوٹ بولنے میں ماہر ہے، جو بازاری
زبان استمعال کرتا ہے اور لوگوں کو ور غلانے کا ہنر جانتا ہے- پچھلے ایک
دہائی میں گالم گلوچ کی سیاست نے بہت ترقی کرلی- جس کی بڑی وجہ سیاسی
جماعتوں میں لاشعور اور نام نہاد سیاسی چہروں کو متعارف کرانا ہے- جس کا
اثر نوجواں طبقے پر پڑ رہا ہے- ایک جھلک دیکھنے کے لئیے آپ سوشل میڈیا کا
رخ کرسکتے ہیں۔
-
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے- جس میں
سوشل میڈیا کا کردار نمایاں ہے- سوشل میڈیا کو ہم جدید بیٹھک بھی کہہ سکتے
ہیں، جہاں پر ہر کوئی کھل کر اظہار خیال کرسکتا ہے- لیکن بدقسمتی سے ہمارے
ہاں زیادہ تر لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ اس کے بہتر استعمال سے ناواقف ہے-
سوشل میڈیا کا استعمال منفی سیاست کے لئے ہورہاہے- ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے
کہ سیاسی مخالف کو کسی بھی طرح نیچا دکھایا جاسکے- برے القاب سے مخاطب کرکے
اطمینان قلب حاصل کیا جاسکے- قرآن میں اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ '' ایک دوسرے
کو برے القاب سے نہ پکارو'' ایک اور جگہ ارشاد ہے '' ایک دوسرے کا مزاق نہ
اڑایا کرو''- جس چیز سے ہمیں قرآن نے بھی منع کیاہے اور انسانیت نے بھی،
وہی کام کرتے ہوئے ہمیں سکون ملتا ہے- اس سے بڑی افسوس کی بات اور کیا
ہوسکتی ہے کہ ہم سیاسی مخالف کو دشمن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں- منفی سیاست نے
ہمیں اس مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے کہ کسی مولوی کو شیطان کہہ کر ہم فخر
محسوس کرتے ہیں- اخلاق کا معیار اتنا گرچکا ہے کہ احادیث پر بھی ہم انگلی
اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے منفی سیاست کے عین مطابق نہیں ہوتے- اور ایسا
تو ہونا ہی تھا کیوں کہ ہماری نوجوان نسل ایسے سیاست دانوں کے پیروکار ہیں
جو انسانیت نام کی چیز سے ناواقف ہیں- انہیں تو صرف الیکشن جیتنے کی فکر
ہوتی ہے، وہ تو صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نوجوانوں میں مقبولیت حاصل
کرنا ہی اصل کامیابی ہے چاہے وہ گالی سے ہو یا جھوٹ سے، فرق نہیں پڑتا-
جن لوگوں کو ہم نے نمائندے بنا کر اسمبلی میں بٹھائے ہیں، جن پر ہم فخر بھی
کرتے ہیں، جن کی خاطر ہم جان دینے کے دعوے بھی کرتے ہیں- انہیں لوگوں پر
دنیا کی نظریں جمی رہتی ہے- لیکن یہ لوگ اسمبلی میں اٹھ کر ایک دوسرے کے
خلاف بازاری زبان استمعال کرتے ہیں، بات بات پر بجوں کی طرح لڑ پڑتے ہیں -
اور دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم ایک شریف قوم کے نمائندے ہیں- اور چند
ہی لمحے بعد قوم کے نوجوانان جنہیں وطن کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے سوشل میڈیا
پر وہی باتیں دہرا کر انہیں داد دینے لگتے ہیں - لیکن کسی نے آج تک یہ
سوچنے کی جرات نہیں کی کہ ہم انہیں داد کیوں دیتے ہیں، ہم ان کے مرید کیوں
بنے بیٹھے ہیں، صرف اس لئے کہ وہ ہمیں بد اخلاقی کا درس دیتے ہیں، وہ ہمیں
یہ سکھاتے ہیں کہ کسی پر کیچڑ کیسے اچھالنا ہے یا اس لئیے کہ وہ ہمیں
سکھاتے ہیں کہ انسانیت کا ستیاناس کیسے کیا جاتا ہے- اگر مردے کو پتہ چلتا
کہ دنیا میں کیا ہورہاہے تو اقبال گور میں بھی افسوس کرتا کہ ایسی قوم کے
لئیے وقت کیوں ضائع کیا جو خود کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے-
پچھلے دنوں ایک دوست کی طرف سے تصویر ملی، جس میں ایک نوجوان نے اپنے لیڈر
کے دفاع میں ایسے الفاظ لکھے تھے جسے سوچ کر بھی مجھے شرم آتی ہے- سوشل
میڈیا کا دروازہ کھول کر دیکھ لوگے تو ان گنت مثالیں دیکھنے کو ملیں گی-
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کیوں ایسا کرتا ہے، جبکہ لوگ
اپنے بچوں کو بااخلاق، سمجھدار اور با کردار بنانے کے لئے تعلیم دلواتے ہیں-
لیکن نتیجہ توقعات کے برعکس نکلتا ہے- کیوں کہ ان کے دماغ میں یہ بات کبھی
نہیں ڈالی گئی کہ آپ کے حقیقی لیڈرکون ہے- حضرت محمد نے زندگی کے جو اصول
بیاں فرمائے ہیں وہ اس سے بے خبر ہیں، اقبال کے افکار سے وہ لا علم ہیں- یہ
کسی نے نہیں بتایا کہ ہم دنیا کا بہترین قوم کیسے بن سکتے ہیں- یہ کسی نے
نہیں بتایا کہ سوشل میڈیا پر پراپگنڈے کرنے سے کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتا-
اسے تو صرف یہ سکھایا گیا ہے کہ جسے آپ ووٹ دیتے ہیں، وہی آپ کا لیڈر ہے،
وہ جو کہتا ہے پتھر سے لکھی ہوئی بات ہے- اگر نوجوانوں کو اسی طرح لا شعور
رکھا گیا تو شاید ہم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکیں گے -
کبھی اے نوجوں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا! تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا |