سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بلاشبہ
تاریخی اہمیت کا حامل ہے جو کہ ماضی سے جاری دینی و تاریخی تعلقات کا تسلسل
ہے ۔اگرچہ پاک سعود تعلقات نئے نہیں ہیں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ حجاز مقدس سے
روحانی وابستگی اپنی جگہ مگراس سے پہلے یہ تعلقات معاشی طور پر محدود تھے
لیکن حالیہ دورے کے دوران جہاں مختلف امور پر بات چیت ہوئی وہاں اہم بات یہ
ہوئی کہ سعودی سرمایہ کاری بارے وسیع ترمعاہدے ہوئے جو کہ ان دو ممالک کے
مابین تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔اس پر سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ’’ ہم
سرمایہ کاری کے لیے قابل اعتماد پاٹنر کی تلاش میں تھے جوکہ موجودہ حکومت
کی صورت میں میسر آگیا ہے ‘‘اس سے صاف ظاہر ہے کہ سعودی فرمانرواں نے
موجودہ حکومت کو نہایت قابل اعتماد قرار دیا ہے۔
سعودی ولی عہد کے اعزا ز میں پر وقار تقریبات میں اپوزیشن سربراہان کو اس
بنیاد پر مدعو نہیں کیا گیا کہ ان کے نام گرامی کرپشن کے زمرے میں زیر بحث
تھے لیکن اگر ان تقریبات میں ان کو بھی مدعو کر کے معزز مہمانوں کے استقبال
کو کل جماعتی استقبال بنا لیا جاتا تو وقتی طور پر یہ شاید کوئی برا نہ
لگتا اور حکومت کاا قدام کبھی بھی ہدف تنقید نہ بنتا ۔جہاں تک مسئلہ
حکمرانوں کے کرپٹ ہونے کا ہے تو ان سب کی مثال تو کسی ریڑھی پہ لگے ہوئے حد
سے زیادہ پکے ہوئے ان تربوزوں کی ہے جن میں سے جن کو بھی توڑو وہ پورا سرخ
ہی نکلے گا ’’الّا ماشا اﷲ‘‘ ۔۔ہاں ایک فرق ضرور رہ جاتا ہے کہ صاحب اقتدار
لوگ با اختیار اور اپوزیشن بے اختیار ہوتی ہے ۔ مگر یہ طے ہے کہ آج اور
گزرے ہوئے کل کی سیاست میں جتنے بھی لوگ جان جوکھوں کا یہ سیاسی کھیل کھیل
کر منصب پر فائز ہوئے ہیں ان کا قبلہ ایک ہی رہا ہے ۔بریں سبب اپوزیشن کے
اتفسار اور میڈیائی سوالات پر حکومتی ترجمان اپنا مؤقف واضح کرنے میں کسی
حد تک ناکام رہے ہیں اور یہ کہہ کر جان چھڑوا لی ہے کہ اپوزیشن غیر سنجیدہ
ہے لہذاہم انھیں نہیں بلا سکتے حالانکہ یہ ملاقات ریاست ٹو ریاست ہوتی ہے
جسے مقامی سیاست کی نظر کر دیا گیا جس پر اپوزیشن کے وہ سربراہان ناراض ہیں
جو یہ سمجھتے ہیں کہ اولََاتو نہ بلا کر ہماری حق تلفی کی گئی ہے اور دوئم
حکومت کے اس عمل سے وہ دنیا میں بہت گندے ہو گئے ہیں ۔ ۔مگر برسراقتدار
زعما ء مطمئن ہیں کیونکہ وہ داد کے طالب ہر گز نہیں ہیں بلکہ سبھی ’’لرننگ‘‘
کے مراحل سے گزر رہے ہیں جس کا اقرار گاہے بگاہے برسر ممبر وہ کرتے رہتے
ہیں ۔ممکن ہے کہ بلاوا بھیجنا یاد ہی نہ رہا ہو جیسے صدر مملکت کو کھڑے ہو
کر سپاس نامہ پیش کرنا اور وزیراعلیٰ کو ٹرافی دینے کے بعد آئی جی سے
مصافحہ کرنا یاد نہ رہا تھا ۔ ۔بس یہی بات تبدیلی سرکار بھول جاتی ہے کہ
میانہ روی اور اعتدال کی پالیسی عملی سیاسست کی سب سے بڑی حکمت عملی ہے ۔ویسے
بھی راستے پر کنکر ہی کنکر ہوں تو بھی ایک اچھا جوتا پہن کر اس پر چلا جا
سکتا ہے ۔لیکن اچھے جوتے کے اندر ایک بھی کنکر ہو تو ایک اچھی سڑک پر بھی
چلنا مشکل ہے یعنی انسان باہر کے چیلنجز سے نہیں اپنے اندر کی کمزوریوں سے
ہارتاہے۔
اس دورے کی قابل ذکر بات یہ کہ جناب وزیراعظم نے سعودیہ میں قید پاکستانیوں
کی رہائی اور حاجیوں کو امیگریشن کی سہولت کے لیے ایسے مؤثر انداز میں
درخواست کی جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔جسے شاہ سعود نے فراخدلی سے نہ صرف
قبول کیا بلکہ یہ کہہ کر محفل کو لوٹ لیا کہ ’’وہ سعودی عرب میں پاکستان کے
سفیر ہیں ‘‘ اور ان کی یہ بات اس محفل میں چوٹی کی بات تھی جس سے انھوں نے
پاکستانی عوام کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔بلاشبہ پاک سعودوستی جنم
جنم سے ہے کیونکہ حرمین شریفین سے ہر مسلمان کی روحانی وابستگی ہے جو کبھی
بھی ختم نہیں ہوسکتی اور یہی وجہ ہے کہ خادمین حرمین شریفین کے لیے
پاکستانیوں کے دل ہمیشہ’ ’اھلاََو سہلاََومرحباً‘‘ رہتے ہیں اور جو نہیں
کہتے۔۔اﷲ تعالیٰ ان کو شعور عطا کرے ۔بریں سبب اس دورے کے دوران جو گرمجوشی
اور اپنایت سربراہان ملت کے مابین نظر آئی وہ بھی فطری بات تھی مگر اس
اپنایت کے احساس کو تقویت تب ملی جب سعودی ولی عہد نے پاکستان میں تقریباً
20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرتے ہوئے ایک نئے دور کا آغاز کیا جو
کہ مابین پاک سعودیہ تجارتی سطح شروع ہو گیا ہے اور اسکا کریڈیٹ یقینا
وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جن کی قیادت پر بھر پور اعتماد کا اظہار
کرتے ہوئے ان کے اصلاحاتی ایجنڈے کی تعریف کی گئی ،ان کے فلاحی ریاست کے
ویژن کو سراہا گیا اور مستقبل قریب میں ہر قسم کی مدد کا یقین بھی دلایا
گیا ہے ۔بلاشبہ یہ ایک خوش آئند عمل ہے کیونکہ سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ
کاری کا اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان عالمی مالیاتی ادارے سے مدد
کا طلبگار بھی ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج پاکستان بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل
سے دوچار ہے ایسے میں پاک سعودی تاریخی سرمایہ کاری سے یقینا تجارتی
،سفارتی اور دفاعی سطح پر تاریخی تعلقات کو مضبوط بنانے اور حالات کو بہتر
کرنے میں مدد ملے گی ۔یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ سعودی کراؤن پرنس کے
بارے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ان کے جناب عمران خان سے دیرینہ تعلقات ہیں
یا بن چکے ہیں تو یہ تمام معاہدے اور دیگر بیانات اسی تعلق کی روشنی میں
ہیں مگر اگلے ہی روز سعودی ولی عہدکے بھارتی دورے اورویسے ہی ملتے جلتے
بیانات اور معاہدوں سے یوں محسوس ہوا کہ اس گرمجوشی اور والہانہ پن کا تاثر
کسی حد تک زائل ہو رہا ہے مگر مثبت فکر کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو سعودی
ولی عہد امت مسلمہ کے ایک نڈر اور کامیاب لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں جس سے
امت مسلمہ کی زبوں حالی دور کرنے اور عالم اسلام کے اتحاد کو یقینی بنانے
میں مدد ملے گی کہ دور رس نتائج حاصل ہونگے ویسے بھی مبصرین یہ عام کہتے
ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کی سوچ بادشاہوں جیسی ہے اور آمروں کی نرسری میں
تربیت پانے والے یہ حکمران بس محاذآرائی کی سیاست کرنا جانتے ہیں مگر سچ تو
یہ ہے کہ تاریخ سے تو ثابت تھا ہی مگر اب سعودی ولی عہد کے پاک بھارت دورے
نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے کہ ہمارے حکمران ویسی دوراندیشی اور فکر ہی
نہیں رکھتے جو کہ ایک بادشاہ رکھتا ہے ۔
بہر کیف اس دورے میں جو امور طے پائے ہیں اس کے بعد بہت سے سوالات اٹھے ہیں
جیسا کہ سعودی ولی عہد کے دورے سے کیا پاکستانی معیشیت مضبوط ہو گی ؟کیا اب
عام آدمی کو ریلیف ملے گا ؟ کیا سعودی ولی عہد کے بھارتی دورے سے پاک و
بھارت میں موجود حالیہ کشیدگی کم ہوگی ؟ کیا اس دورے سے پاکستانی مزدوروں
اور عازمین حج کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ؟کیا اربوں ریال کے معاہدوں کی
تکمیل کے لیے بھی کوئی وقت دیا جائے گا ؟اس دورے سے سعودی عرب میں مقیم
پاکستانیوں کا استحصال بند ہو جائے گا ؟کیا یہ دورہ دفاعی لحاظ سے خطے پر
اثرانداز ہوگا ؟ جو وعدے اور معاہدے پاکستان سے کئے گئے ہیں ویسے ہی بھارت
سے بھی کئے گئے ہیں تو ایسے میں اس دورے کی دیگر مغربی اور مسلم ممالک کی
نظر میں کیا اہمیت اور افادیت ہے ؟کیا سعودی ولی عہد عالم اسلام کو ایک
جھنڈے تلے جمع کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے ؟ان کا جواب تو وقت ہی دے گا
مگردوسری طرف پلوامہ حملے کے بعد بھارت اپنی روایتی جارحیت اور جاہلیت پر
اترا ہوا ہے اس نے’’ پلوامہ حملے‘‘ کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے اور
میاں صاحب کے پاکستان مخالف بیانات کو عالمی عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش
کر دیا ہے۔ جو سرحد پار اڑتے ہوئے کبوتر کو پاکستانی جاسوس کہہ کر لرز جاتا
ہو اس سے اور گھٹیاپن کی کیا امید کی جا سکتی ہے ۔۔؟سفاکیت ،بے حسی اور
درندگی کی انتہا یہ ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ہی فوجیوں کو
مروا کر بھارت میں مقیم مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیرکے نہتے کشمیریوں پر جاری
مظالم کے سلسلے کو تیز کر دیا ہے ۔جبکہ دنیا بھارت کی الیکشن حکمت عملی کو
پوری طرح جان چکی ہے کہ ان میں کوئی ایسا معقول لیڈر ہی نہیں کہ جو اپنی
کسی سیاسی قابلیت یا عوامی مقبولیت کی بنیاد پر الیکشن جیت سکے ۔یہ ایک
تاریخی حوالہ ہے کہ وہ اس وقت تک الیکشن جیت ہی نہیں سکتے جس وقت تک
پاکستان کو اپنا ازلی دشمن ثابت کرنے کا ڈھونگ نہ رچا لیں ۔وہ اپنے عوام کو
جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں اور خود کو پاکستان کا بڑا دشمن ثابت کر
کے اپنے سادہ لوح مجبور اور حکومتی ظلم و ستم کے مارے ہوئے عوام کی
ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں جونہی الیکشن کا دورانیہ ختم ہوتا ہے پھر وہ دو
ملکوں کے درمیان باڈر کے نشان کو صرف ایک لکیر قرار دیتے ہیں اور اگر خدا
نخواستہ بھارت کسی غلط زعم ، کسی غلط فہمی ، یا نادانی سے ہماری مسلح افواج
اور جی دار عوام کے سامنے کھڑا ہوگیا تو وہ نہیں جانتا کہ اس کو کتنا بڑا
خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔وہ اپنی اس چال بازی کا پرانا مکار ماہر ہے کہ جب
بھی کبھی نبرد آزمائی کا وقت آیا اور اس نے ہمارے حوصلوں کو آزمایا تو ایسی
منہ کی کھائی کہ پھر پسپائی کو راہ نہ ملا اور اپنے کسی نہ کسی ہمدرد کی
معاونت سے گھٹنے ٹیک کر جنگ بند کروائی مگر اب کہ شاید ایسا نہیں ہوگا ۔۔! |